بِسْمِ
اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
سانحہ مسجد اقصی
مسجد اقصی میں آتش زنی کی دلخراش خبر ہر مسلمان کے قلب و روح پر بجلی بن کر گری ہے اور ساری دنیا کے مسلمان اس پر تڑپ اٹھے ہیں۔ اس وقت بار بار لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ایک طوفان کی طرح اٹھ رہا ہے کہ آخر اس مصیبت کا علاج کیا ہے؟ یہ ہماری تاریخ کے نازک ترین لمحات میں سے ایک لمحہ ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ منحوس لمحہ ہماری زندگی میں پیش آیا۔ 70، 75 کروڑ مسلمان دنیا میں موجود ہیں۔ اور پھر بھی یہودیوں کی یہ ہمت ہوئی کہ ہمارے تین مقدس ترین مسجدوں میں سے ایک کو آگ لگا دیں۔ اس مسجد کو پھونک ڈالیں جسے اسلام میں قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کی طرف رخ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھےچودہ برس تک نماز پڑھی ہے۔ اور جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ اس سے بڑی مصیبت امت مسلمہ کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے۔ جس مسلمان کے دل میں دین کی ادنی رمق بھی باقی ہے وہ سوچ رہا ہے کہ یہاں تک نوبت پہنچ جانے کے بعد بھی اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو دنیا میں اس امت کی کیا آبرو باقی رہ جائے گی اور اس کے بعد ہمیں نامعلوم اور کیسے ذلتوں سے سابقہ پیش آئے گا۔
اس
نازک موقع پر یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اس معاملے کی پوری نوعیت کو اچھی طرح سمجھ
لیں، کیونکہ اسے سمجھے بغیر ہم صحیح طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہمیں مسجد
اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
اس
جرم کا اصل محرک کیا ہے ؟
اسرائیل
نے اس واقعے کے بعد مسلمانوں کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کی پے در پہ کوششیں کی
ہیں۔ اور اس کے لیے بڑے اوچھے طریقے اختیار کیے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہا گیا کہ
بجلی کے تاروں میں خرابی واقع ہونے سے اتفاقا آگ لگ گئی۔ لیکن پھر خود ہی ان
مجرموں نے یہ محسوس کر لیا کہ یہ بات چلنے والی نہیں ہے۔ اتنی بڑی عمارت میں محض
بجلی کے تاروں کی خرابی سے ایسی خوفناک آتش زدگی آخر کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کے بعد
نہایت ڈھٹائی اور سخت بے حیائی کے ساتھ یہ جھوٹ گھڑا گیا کہ عربوں نے خود آگ لگائی
ہے۔ اس طرح کے جھوٹ کا ہم کو پہلے ہی کافی تجربہ ہے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ کس قماش
کے لوگ ایسے جھوٹ گھڑا کرتے ہیں۔ ابھی تھوڑی ہی مدت پہلے اسی لاہور میں ہمارے دفتر
پر حملہ کر کے قران جلایا گیا اور الٹا ہم پر ہی یہ بہتان لگا دیا گیا کہ قران
انہوں نے خود جلایا ہے۔ جس فلسفے کے تحت یہ جھوٹ گھڑا گیا تھا اس فلسفے کے اصل
مصنف یہودی ہی ہیں۔ وہ یہودی دماغ ہی تھا جس نے اخلاق کا یہ اصول تصنیف کیا تھا کہ
جس طریقے سے بھی مقصد برآری ہو سکے وہ برحق ہے۔ یہودیوں کو بہت جلد یہ محسوس ہو
گیا کہ یہ دروغ بے فروغ بھی کارگر نہ ہوگا۔ اب ایک آسٹریلین نوجوان کو انہوں نے
پکڑ لیا ہے اور دنیا کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اس دیوانے نے کسی جنون کے دورے
میں یہ حرکت کر ڈالی ہے، ورنہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کا کوئی منصوبہ اسرائیل کے
پیش نظر نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نوجوان پر مقدمہ چلا کر اور اپنے ایک خود ساختہ
کمیشن کے ذریعے سے تحقیقات کرا کے وہ اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ اس لیے
میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کی پوری تاریخ بیان کر دوں جس سے اپ کو یہ معلوم ہو
جائے کہ یہ ایک بڑا طویل المیعاد منصوبہ ہے جو صدیوں سے چل رہا ہے اور اسی کے تحت
یہ کاروائی بطور تمہید کی گئی ہے۔
یہودی
عزائم کی تاریخ
بیت المقدس اور فلسطین کے متعلق آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تقریبا 1300 برس قبل مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالاخر اس پر قابض ہو گئے تھے۔ وہ اس سرزمین کے اصل باشندے نہیں تھے۔ قدیم باشندے دوسرے لوگ تھے جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائبل میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، اور بائبل ہی کی تصریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتل عام کر کے اس سرزمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنگیوں نے ریڈ انڈینز کو فنا کر کے امریکہ پر قبضہ کیا۔ ان کا دعوی یہ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کی میراث میں دے دیا ہے، اس لیے انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس کی اصل باشندوں کو بے دخل کر کے، بلکہ ان کی نسل کو مٹا کر اس پر قابض ہو جائیں۔
اس
کے بعد اٹھویں صدی قبل مسیح میں اسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کر کے اسرائیلیوں
کا بالکل قلاقما کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لا بسایا جو زیادہ تر عربی
النسل تھیں۔ پھر چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر
قبضہ کر کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا۔ بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی
اور ہیکل سلیمانی کو جسے دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر
کرایا تھا، اس طرح پیوند خاک کر دیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔
ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد ایرانیوں کے دور حکومت میں یہودیوں کو پھر سے
جنوبی فلسطین میں آکر اباد ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے بیت المقدس میں دوبارہ
ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی لیکن یہ دوسرا وقفہ بھی تین چار سو برس سے زیادہ دراز نہ
ہوا۔ 70 عیسوی میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی جس کی پاداش میں بیت
المقدس کے شہر اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کر دیا گیا، اور پھر ایک دوسری بغاوت
کو کچل کر 135 عیسوی میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔ اس
دوسرے اخراج کے بعد جنوبی فلسطین میں بھی اسی طرح عربی النسل قبائل آباد ہو گئے جس
طرح شمالی فلسطین میں وہ 800 برس پہلے آباد ہوئے تھے۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہ
پورا علاقہ عربی قوموں سے آباد تھا، بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے
قانونا ممنوع کر رکھا تھا اور فلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب ناپید تھی ۔
اس
تاریخ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ
(١)
یہودی ابتدا نسل کشی جینوسائڈ کے مرتکب ہو کر فلسطین پر زبردستی قابض ہوئے تھے۔
(٢)
شمالی فلسطین میں صرف چار پانچ سو برس تک وہ اباد رہے۔
(٣)
جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ اٹھ نو سو برس رہی۔
(۴) اور عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریبا دو ہزار سال سے اباد چلے ارہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہودیوں کا اج بھی یہ دعوی ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جو خدا نے انہیں عطا فرمائی ہے۔ اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور حاصل کر کے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کر دیں اور خود ان کی جگہ بس جائیں جس طرح 1300 برس قبل مسیح میں انہوں نے کیا تھا۔
دو
ہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں بیت
المقدس پھر ہمارے ہاتھ ائے اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر تعمیر کریں۔ ہر یہودی گھر
میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈرامہ کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم مصر
سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح اباد ہوئے اور کیسے بابل والے ہم کو لے گئے
اور ہم کس طرح سے فلسطین سے نکالے گئے اور تتر بتر ہوئے۔ اس طرح یہودیوں کے بچے
بچے کے دماغ میں یہ بات 20 صدیوں سے بٹھائی جا رہی ہے کہ فلسطین تمہارا ہے اور تمہیں
واپس ملنا ہے اور تمہارا مقصد زندگی یہ ہے کہ تم بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو
پھر تعمیر کرو۔ بارہویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسی بن میمون(MAIMONIBES) میں اپنی کتاب شریعت یہود۔ ( The
Code of Jeevesh Law ) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا
یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرے۔ مشہور فری
میسن تحریک (FREE MASON MOVEMENT)
بھی جس کے متعلق ہمارے ملک کے اخبارات میں قریب قریب سارے ہی حقائق اب شائع ہو چکے
ہیں، اصلا ایک یہودی تحریک ہے، اور اس میں بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کو مقصود
قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ پوری فری میںسن تحریک کا مرکزی تصور یہی ہے، اور تمام فری
میںسن لاجوں کا اس کا باقاعدہ ڈرامہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ
تعمیر کرنا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسجد اقصی میں اگ لگنا کوئی اتفاقی
حادثہ نہیں ہے۔ صدیوں سے یہودی قوم کی زندگی کا نصب العین یہی رہا ہے کہ وہ مسجد
اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرے، اور اب بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہو جانے کے
بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس نصب العین کو پورا کرنے سے باز رہ جائیں۔
یہودیوں
کی احسان فراموشی
اگے
بڑھنے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہیکل سلیمانی کے
متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے 70 عیسوی میں بالکل مسمار کر دیا گیا تھا
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہوا اس وقت یہاں
یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا، بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے۔ اس لیے مسجد اقصی اور قبہ
صغری کی تعمیر کے بارے میں کوئی یہودی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے کسی معبد
کو توڑ کر مسلمانوں نے یہ مساجد بنائی تھی۔ یہ بات بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ رومیوں
کے زمانے میں فلسطین یہودیوں سے خالی کرا لیا گیا تھا اور بیت المقدس میں تو ان کا
داخلہ بھی ممنوع تھا۔ یہ مسلمانوں کی شرافت تھی کہ انہوں نے پھر انہیں وہاں رہنے
اور بسنے کی اجازت دی۔ تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ پچھلے 13،14 صدیوں میں
یہودیوں کو اگر کہیں امن نصیب ہوا ہے تو وہ صرف مسلمان ملک تھے۔ ورنہ دنیا کے ہر
حصے میں جہاں بھی عیسائیوں کی حکومت رہی وہاں وہ ظلم و ستم کا نشانہ ہی بنتے رہے۔
یہودیوں کے اپنے مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار دور
وہ تھا جب وہ اندلس میں مسلمانوں کی رعایا کی حیثیت سے اباد تھے۔ یہ دیوار گریا جس
کو آج یہودی اپنی سب سے بڑی مقدس یادگار سمجھتے ہیں، یہ بھی مسلمانوں ہی کی عنایت
سے انہیں ملی تھی۔ بمبئی سے اسرائیلی حکومت کا ایک سرکاری بلٹن "NEWS
FROM ISRAEL" شائع ہوتا ہے۔ اس کی یکم جولائی ١٩٦٧
کی اشاعت میں۔ یہ بیان کیا گیا ہے کہ دیوار گریا پہلے ملبے اور کوڑے کرکٹ میں دبی
ہوئی تھی اور اس کا کوئی نشان تک لوگوں کو معلوم نہ تھا۔ سولویں صدی عیسوی میں
سلطان سلیم عثمانی کو اتفاقا اس کے وجود کا علم ہوا اور اس نے اس جگہ کو صاف کرا
کے یہودیوں کو اس کی زیارت کی اجازت عطا کی۔ لیکن یہودی ایک ایسی احسان فراموش قوم
ہے کہ وہ مسلمانوں کی شرافت اور فیاضی اور حسن سلوک کا بدلہ اج اس شکل میں ان کو
دے رہی ہے۔
یہودیوں
کی منصوبہ بندی
اب
میں مختصر طور پر اپ کو بتاؤں گا کہ ان ظالموں نے کس طرح باقاعدہ منصوبہ بندی کر
کے فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ سب سے پہلے ان کے ہاں
ایک تحریک شروع ہوئی کہ مختلف علاقوں سے یہودی ہجرت کرکرکے فلسطین میں جا کر اباد
ہوں اور وہاں زمین خریدنی شروع کریں۔ چنانچہ 1880 سے اس مہاجرت کا سلسلہ شروع ہوا
اور زیادہ تر مشرقی یورپ سے یہودی خاندان وہاں منتقل ہونے لگے۔ اس کے بعد مشہور
یہودی لیڈر تھیوڈور ہرتزل(Herzl) نے 1897 میں صحیونی تحریک زینس مومنٹ (ZIONIST
MOVEMENT)کا باقاعدہ اغاز کیا اور اس میں اس بات کو
مقصود قرار دیا گیا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا جائے اور ہیکل سلیمانی کی
تعمیر کی جائے۔ یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد
فراہم کی کہ فلسطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں اور منظم
طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں۔ پھر 1901 میں ہرتزل نے سلطان عبدالحمید خان (سلطان
ترکی) کو باقاعدہ یہ پیغام بھیجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار
ہیں، اپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں۔ مگر سلطان
عبدالحمید خان نے اس پیغام پر تھوک دیا اور صاف کہہ دیا کہ جب تک میں زندہ ہوں اور
جب تک ترکی سلطنت موجود ہے اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ فلسطین یہودیوں
کے حوالے کیا جائے، تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا ہوں جس شخص کے ہاتھ یہ پیغام
بھیجا گیا تھا اس کا نام تھا ہاخام قراہ سو افندی،۔ یہ سالونیکا کا یہودی باشندہ
تھا اور ان یہودی خاندانوں میں سے تھا جو اسپین سے نکالے جانے کے بعد ترکی میں
آباد ہوئے تھے۔ ترکی رعایا ہونے کے باوجود اس نے یہ جرات کی کہ سلطان ترکی کے
دربار میں پہنچ کر فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ پیش کرے۔ اسی پر بس
نہیں، بلکہ سلطان عبدالحمید خان کا جواب سن کر ہرتزل کی طرف سے ان کو صاف صاف یہ
دھمکی دی گئی کہ تم اس کا برا نتیجہ دیکھو گے۔ چنانچہ اس کے بعد فورا ہی سلطان
عبدالحمید کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش شروع ہو گئی جن میں فری میسن، دونما+
اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر اکر ترکی قوم پرستی کے
علمبردار بن گئے تھے۔
+ یہ وہ یہودی تھے جنہوں نے ریاکارانہ اسلام قبول کر رکھا تھا ترک
ان کو دونما کہتے ہیں+
ان
لوگوں نے ترکی فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے اندر ان کی سازشیں پختہ
ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیں۔ اس موقع پر جو
انتہائی عبرت ناک واقعہ پیش ایا وہ یہ تھا کہ 1908 میں جو تین ادمی سلطان کی
معزولی کا پروانہ لے کر ان کے پاس گئے تھے ان میں دو ترک تھے اور تیسرا وہی قرہ صو
افندی تھا جس کے ہاتھ ہرتزل نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ سلطان
کے پاس بھیجا تھا۔ مسلمانوں کی بے غیرتی کا اس سے اندازہ کیجئے کہ اپنے سلطان کی
معزولی کا پروانہ بھیجتے بھی ہیں تو ایک ایسے یہودی کے ہاتھ جو سات ہی برس پہلے
اسی سلطان کے پاس فلسطین کی حوالگی کا مطالبہ لے کر گیا تھا۔ اور اس سے سخت جواب
سن کر ایا تھا۔ ذرا تصور کیجئے کہ سلطان کے دل پر کیا گزری ہوگی جب وہی یہودی ان
کی معزولی کا پروانہ لیے ہوئے ان کے سامنے کھڑا تھا۔
ترکی اور عربی قوم پرستی کا تصادم
اسی
زمانے میں ایک دوسری سازش بھی زور شور سے چل رہی تھی جس کا مقصد ترکی سلطنت کے
ٹکڑے اڑانا تھا اور اس سازش میں بھی مغربی سیاست کاروں کے ساتھ ساتھ یہودی دماغ
ابتدا سے کار فرما رہا۔ ایک طرف ترکوں میں تحریک اٹھائی گئی کہ وہ سلطنت کی بنا
اسلامی اخوت کے بجائے ترکی قوم پرستی پر رکھیں۔ حالانکہ ترکی سلطنت میں صرف ترکی
اباد نہیں تھے بلکہ عرب اور کرد اور دوسری نسلوں کے مسلمان بھی تھے۔ ایسی سلطنت کو
صرف ترکی قوم کی سلطنت قرار دینے کے صاف معنے یہ تھے کہ تمام غیر ترک مسلمانوں کی
ہمدردیاں اس کے ساتھ ختم ہو جائیں۔ دوسری طرف عربوں کو عربی قومیت کا سبق پڑھایا
گیا اور ان کے دماغ میں یہ بات بٹھائی گئی کہ وہ ترکوں کی غلامی سے آزاد ہونے کی
جدوجہد کریں۔ عربوں میں اس عرب قوم پرستی کا فتنہ اٹھانے والے عیسائی عرب تھے۔
بیروت اس کا مرکز تھا اور بیروت کی امریکن یونیورسٹی اس کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی
ہوئی تھی۔ اس طرح ترکوں اور عربوں میں بیک وقت دو متضاد قسم کی قوم پرستیاں ابھاری
گئیں اور ان کو یہاں تک بھڑکایا گیا کہ 1914 عیسوی میں جب پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی
تو ترک اور عرب ایک دوسرے کے رفیق ہونے کے بجائے دشمن اور خون کے پیاسے بن کر امنے
سامنے کھڑے ہو گئے۔
جنگ
عظیم اول اور اعلان بالفور
Balfour
Declaration
پہلی
جنگ عظیم میں اقتدار یہودیوں نے حکومت جرمنی سے معاملہ کرنا چاہا تھا، کیونکہ
جرمنی میں اس وقت یہودیوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا اج امریکہ میں پایا جاتا ہے۔
انہوں نے قیصر ولیم سے یہ وعدہ لینے کی کوشش کی کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی
وطن بنوا دے گا۔ لیکن جس وجہ سے یہودی اس پر یہ اعتماد نہیں کر سکتے تھے کہ وہ
ایسا کرے گا وہ یہ تھی کہ ترکی حکومت اس وقت جنگ میں جرمنی کی حلیف تھی۔ یہودیوں
کو یقین نہیں اتا تھا کہ قیصر ولیم ہم سے یہ وعدہ پورا کر سکے گا۔ اس موقع پر
ڈاکٹر وائز مین اگے بڑھا اور اس نے انگلستان کی حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں
تمام دنیا کے یہودیوں کا سرمایہ اور تمام دنیا کے یہودیوں کا دماغ اور ان کی ساری
قوت و قابلیت انگلستان اور فرانس کے ساتھ اسکتی ہے اگر اپ ہم کو یہ یقین دلا دیں
کہ اپ فتحیاب ہو کر فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنا دیں گے۔ ڈاکٹر وائزمین ہی
اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علمبردار تھا۔ اخر کار اس نے 1917 عیسوی
میں انگریزی حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کر لیا جو اعلان بالفور کے نام سے
مشہور ہے۔ یہ انگریزوں کی بددیانتی کا شاہکار ہے کہ ایک طرف وہ عربوں کو یقین دلا
رہے تھے کہ ہم عربوں کی ایک خود مختار ریاست بنائیں گے اور اس غرض کے لیے انہوں نے
شریف حسین کو تحریری وعدہ دے دیا تھا اور اسی وعدے کی بنیاد پر عربوں نے ترکوں سے
بغاوت کرکے فلسطین اور عراق اور شام پر انگلستان کا قبضہ کرا دیا تھا۔ دوسری طرف
وہی انگریز یہودیوں کو باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم فلسطین کو یہودیوں کا
قومی وطن بنائیں گے۔ یہ اتنی بڑی بے ایمانی تھی کہ جب تک انگریزی قوم دنیا میں
موجود ہے وہ اپنی تاریخ پر سے اس کلنگ کے ٹیکے کو نہ مٹا سکے گی۔ پھر ذرا غور
کیجئے کہ فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنانے کے اخر معنی کیا تھے؟ وہاں دو ڈھائی
ہزار برس سے ایک قوم اباد چلی ا رہی تھی۔ اعلان بالفور کے وقت وہاں یہودیوں کی
ابادی پوری پانچ فیصد ہی بھی نہ تھی۔ ایسے ملک کے متعلق سلطنت برطانیہ کا وزیر
خارجہ یہ تحریری وعدہ دے رہا تھا کہ ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن
بنایا جائے گا جو دنیا بھر میں 1900 برس سے بکھری ہوئی تھی۔ اس کا صاف مطلب گویا
یہ وعدہ کرنا تھا کہ ہم تمہیں موقع دیں گے کہ عربوں کے جس وطن پر ہم نے خود عربوں
کی مدد سے قبضہ کیا ہے اس سے تم انہیں عربوں کو نکال باہر کرو اور ان کی جگہ دنیا
کے گوشے گوشے سے اپنے افراد کو لا کر بسا دو۔ یہ ایک ایسا ظلم تھا جس کی نظیر پوری
انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس زخم پر نمک پاشی یہ ہے کہ لارڈ بلفور نے اپنے اس
خط کے متعلق اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے تھے:-
"ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صہیونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اس وقت اباد ہیں"۔
بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ اج بھی برطانوی پالیسی کے دستاویزاتDOCUMENTS OF BRITISH POLICY کی جلد دوم میں ثبت ہیں۔
مجلس اقوام کی کارگزاری
فلسطین
پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بلفور کے اعلان سے یہودیوں کے طویل المعاد منصوبے کا
پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ 1880 عیسوی سے شروع ہو کر 1917 عیسوی تک اس مرحلے کی تکمیل
میں 37 سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد اس منصوبے کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں مجلس
اقوام لیگ اف نیشنز اور اس کی اصل کار فرما دو بڑی طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے
بالکل اس طرح کام کیا گویا وہ ازاد سلطنتیں نہیں ہیں بلکہ محض صہیونی تحریک کے
ایجنٹ ہیں۔ 1922 میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کا انتداب
مینڈیٹ(MANDATE)
میں دے دیا جائے۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں
مسلمان عرب 660641 عیسائی عرب 71464 اور یہودی 82790 تھے۔ اور یہودیوں کی اتنی ابادی
بھی اس وجہ سے تھی کہ وہ دھڑا دھڑ وہاں جا کر اباد ہو رہے تھے اس پر بھی مجلس
اقوام نے برطانیہ کو +انتداب کا پروانہ دیتے ہوئے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ ہدایت
کی کہ اس کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کے لیے ہر
طرح کی اسانیاں فراہم کرے. صہیونی تنظیم کو سرکاری طور پر باقاعدہ تسلیم کر کے اسے
نظم و نسق میں شریک کرے اور اس کے مشورے اور تعاون سے یہودی قومی وطن کی تجویز کو
عملی جامہ پہنائے۔
+ انتداب کا مطلب یہ ہے کہ ایک حکومت بطور خود کسی ملک کی
فرمانروائی نہیں کر رہی ہے بلکہ مجلس اقوام کی طرف سے اس کے سپرد یہ کام کیا گیا
ہے کہ وہ وہاں خاص شرائط کے تحت فرما روائی کرے+
اس
کے ساتھ وہاں کے قدیم اور اصل باشندوں کے لیے صرف اتنی ہدایت پر اکتفا کیا گیا کہ
ان کے مذہبی اور مدنی سول Civil حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ سیاسی حقوق کا اس میں سر سے کوئی ذکر نہ
تھا۔ یہ تھا اس مجلس اقوام کا انصاف جسے دنیا میں امن قائم کرنے کا نام لے کر وجود
میں لایا گیا تھا۔ اس نے یہودیوں کو باہر سے لا کر بسانے والوں کو تو سیاسی اقتدار
میں شریک کر دیا اور ملک کے اصل باشندوں کو اس کا مستحق بھی نہ سمجھا کے ان کی
سیاسی حقوق کا برائے نام بھی تذکرہ کر دیا جاتا۔ اس سے اپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ
اس وقت دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں اور مجلس اقوام میں یہودیوں نے کتنے اثرات پیدا کر
لیے تھے جن کی بدولت فلسطین کو انگریزوں کے انتداب میں دیتے ہوئے یہ ہدایات جاری
کی گئی تھیں ۔
انگریزی
انتداب کا کارنامہ
یہ
انتداب حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا سلسلہ شروع کر دیا
گیا۔ فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سر سبربرٹ سیمویل خود ایک یہودی
تھا۔ صہیونی تنظیم کو عملا حکومت کے نظم و نسق میں شریک کیا گیا اور اس کے
سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کیے گئے بلکہ بیرونی ممالک سے لوگوں کے
داخلے سفر اور قومیت کے معاملات بھی اس کے حوالے کر دیے گئے۔ ایسے قوانین بنائے
گئے جن کے ذریعے سے باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں ا کر زمینیں حاصل کرنے کی پوری
سہولتیں دی گئیں۔ مزید براں ان کو زمین کاشت کرنے کے لیے قرضوں اور تقادی
اور دوسری سہولتوں سے بھی نوازا گیا۔ عربوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ٹیکسوں کے
بقایہ پر ہر بہانے عدالتوں نے زمینیں ضبط کرنے کی ڈگریاں دینی شروع کر دیں۔ ضبط
شدہ زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی گئیں اور سرکاری زمینوں کے بھی بڑے بڑے رقبے
یہودی نو اباد کاروں کو کہیں مفت اور کہیں برائے نام پٹے پر دے دیے گئے۔ بعض
مقامات پر کسی نہ کسی بہانے پورے پورے گاؤں صاف کر دیے گئے اور وہاں یہودی بستیاں
بسائی گئیں۔ ایک علاقے میں تو 8 ہزار عرب کاشتکاروں اور زراعت کی کارکنوں کو 50
ہزار ایکڑ زمین سے حکما بے دخل کر دیا گیا۔ اور ان کو فکس تین پاؤنڈ 10 شیلنگ دے
کر چلتا کیا گیا۔ ان تدبیروں سے 17 سال کے اندر یہودی ابادی میں غیر معمولی اضافہ
ہوا 1922 عیسوی میں وہ 82 ہزار سے کچھ زائد تھے 1949 عیسوی میں ان کی تعداد ساڑھے
چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریز فلسطین میں صرف صہیونیت کی
خدمت انجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی
ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا
اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جنگ
عظیم دوم کے زمانے میں معاملہ اس سے بہت اگے بڑھ گیا۔ ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے
والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔
صیہونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع
کیا اور مسلح تنظیم قائم کیں جنہوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور
یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ انگریزی انتداب کی ناک کے نیچے
یہودیوں کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے تھے اور وہ عربوں پر چھاپے مار رہے تھے۔ مگر
قانون صرف عربوں کے لیے تھا جو انہیں ہتھیار رکھنے اور ظلم کے جواب میں مدافعت
کرنے سے روک رہا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل
مکان کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخ دل تھی۔ اس طرح 1917 عیسوی سے 1947 عیسوی
تک 30 سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس میں وہ اس قابل ہو گئے
کہ فلسطین کو یہودیوں کا "قومی وطن" بنانے کے بجائے فلسطین میں ان کی
"قومی ریاست" قائم کر دیں۔
"قومی وطن" سے "قومی ریاست تک"
1947 عیسوی میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں
پیش کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجلس اقوام (لیگ آف نیشنز) نے صہیو نیت کی جو
خدمت ہمارے سپرد کی تھی وہ ہم انجام دے چکے ہیں۔ اب اگے کا کام اس انجہانی مجلس کی
نئی جانشین اقوام متحدہ انجام دے۔ اب ملاحظہ کیجئے کہ یہ دوسری مجلس جو دنیا میں
امن و انصاف کے قیام کی علمبردار بن کر اٹھی تھی اس نے فلسطین میں کیا انصاف قائم
کیا۔
نومبر
1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان
تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ یہ فیصلہ ہوا کس طرح؟ اس کے حق میں 33 ووٹ اور
اس کے خلاف 13 ووٹ تھے۔ 10 ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔ یہ کم سے کم اکثریت تھی جس
سے جنرل اسمبلی میں کوئی ریزولیوشن پاس ہو سکتا تھا۔ چند روز پہلے تک اس تجویز کے
حق میں اتنی اکثریت بھی نہ تھی۔ صرف 30 ملک اس کے حق میں تھے۔ اخر کار امریکہ نے
غیر معمولی دباؤ ڈال کر ہائیٹی، فلیپائن، اور لائیریا کو مجبور کر کے اس کی تائید
کرائی۔ یہ بات خود امریکن کانگرس کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی
حاصل کیے گئے تھے، اور جیمز فوریسٹال(FORESTAL) اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ:
"اس معاملے میں دوسری قوموں پر دباؤ ڈالنے اور ان کو اوٹ دینے
پر مجبور کرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ شرمناک کاروائی اسکینڈل(SCANDAL) کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔"
تقسیم
کی جو تجویز ان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی اس کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33
فیصدی یہودی ابادی کو اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب ابادی کو دیا گیا. حالانکہ اس
وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف چھ فیصدی حصہ یہودیوں کے قبضے میں ایا تھا۔ یہ تھا
اقوام متحدہ کا انصاف!
لیکن
یہودی اس بندر بانٹ سے بھی راضی نہ ہوئے اور انہوں نے مار دھاڑ کر کے عربوں کو
نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
اس
سلسلے میں جو مظالم عربوں پر کیے گئے ارنلڈ ٹائم بھی ان کے متعلق اپنی کتاب ASTUDY
OF HISTORY میں کہتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی ان مظالم سے
کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ دیر یاسین میں 9 اپریل 1948 کی
قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے جس میں عرب عورتوں بچوں اور مردوں کو بے
دریغ موت کی گھاٹ اتارا گیا، عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا
گیا اور یہودی موٹروں پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھرے کہ ہم نے
دیر یاسین کی عرب ابادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے
ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔ ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ کیا یہ کسی ایسی
قوم کا کارنامہ ہو سکتا ہے جس میں رمق برابر بھی شرافت و انسانیت موجود ہو؟
ان
حالات کے دوران میں 14 مئی 1948 کو عین اس وقت جب کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
فلسطین کی مسئلے پر پھر بحث کر رہی تھی یہودی ایجنسی نے رات کے 10 بجے اسرائیلی
ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے اگے بڑھ
کر اس کو تسلیم کیا، حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی
قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔اس اعلان کے وقت تک چھ لاکھ سے زائد ارب
گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے، اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم
(بیت المقدس) کے ادھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔
ریاست
اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونے کے بعد گرد و پیش کی عرب ریاستوں نے بے سہارا عرب
ابادی کو مار دھاڑ اور لوٹ مار سے بچانے کے لیے مداخلت کی اور ان کی فوجیں فلسطین
میں داخل ہو گئیں۔ لیکن یہودی اس وقت تک اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ سب ریاست مل کر
بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ بلکہ جب نومبر 1948 میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا
فیصلہ کیا اس وقت فلسطین کا رقبہ کا 77 فیصدی سے بھی کچھ زیادہ حصہ یہودیوں کے
قبضے میں جا چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہودیوں کو اتنی جنگی طاقت کس نے فراہم کر کے
دی تھی کہ پانچ عرب ریاستوں کی متحدہ طاقت بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکی؟ اس طاقت کے
فراہم کرنے میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکی نظام دونوں شریک تھے، اور سب سے
زیادہ ہتھیار اس جنگ کے لیے چیکوسلوواکیہ سے آئے تھے جو اج خود ظلم و ستم کا شکار
ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی جو بحثیں اس زمانے میں ہوئیں، ان کا ریکارڈ شاہد ہے کہ
یہودیوں کی حمایت اور عربوں کی مخالفت میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی
نظام دونوں کے علمبردار ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے تھے،
اور
یہ کہنا مشکل تھا کہ ان میں سے کون یہودیوں کا زیادہ حامی ہے۔
یہودی
منصوبے کا تیسرا مرحلہ
اس
کے بعد یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا جو 19 سال کے اندر 1967 کی جنگ میں
بیت المقدس اور پورے باقی ماندہ فلسطین اور پورے جزیرے نماے سینا اور سرحد شام کی
بالائی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے سے تکمیل کو پہنچا۔ نومبر 1948 میں اسرائیلی
ریاست کا رقبہ 7993 مربع میل تھا۔ جون 67 کی جنگ میں اس کے اندر 27 ہزار مربع میل
کا اضافہ ہو گیا اور 14، 15 لاکھ عرب یہودیوں کے غلام بن گئے۔ اس مرحلے میں
اسرائیل کے منصوبے کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر امریکہ اس کا حامی
و مددگار اور پشت پناہ بنا رہا۔ برطانیہ اور فرانس اور دوسرے مغربی ممالک بھی اپنی
اپنی حد تک اس کی تائید و حمایت کا پورا حق ادا کرتے رہے۔ روس اور پورا مشرقی بلاک
بھی کم از کم 1955 تک علانیہ اس کا حامی رہا اور بعد میں اس نے اگر اپنی پالیسی
بدلی بھی تو وہ عرب ملکوں کے لیے مفید ہونے کے بجائے اسرائیل ہی کے لیے مفید ثابت
ہوئی۔ 1955 میں جب عرب ممالک اس بات سے بالکل مایوس ہو گئے کہ امریکہ اور دوسرے
مغربی ملکوں سے ان کو اسرائیل کے مقابلے میں اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار مل سکیں گے
تو انہیں مجبورا اشتراکی بلاک کی طرف رجوع کرنا پڑا اور اس بلاک کے ملکوں نے اس
لالچ میں ان کو ہتھیار دینا شروع کیے کہ اس طرح انہیں عرب ممالک میں اشتراکیت
پھیلانے اور ان کو اپنے دائر اثر میں لانے کا موقع مل جائے گا۔ اس کے نتیجے میں یہ
تو نہ ہو سکا کہ عرب ممالک اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے البتہ یہ ضرور
ہوا کہ روس کو مصر و شام سے یمن تک اور عراق سے الجزائر تک اپنے اثرات پھیلانے کا
موقع حاصل ہو گیا اور عرب ملکوں میں رجعت پسندی اور ترقی پسندی کی کشمکش اتنی بڑھی
کہ اسرائیل سے نمٹنے کے بجائے وہ اپس ہی میں ایک دوسرے سے الجھ کر رہ گئے۔
19 برس کی اس مدت میں امریکہ نے اسرائیل کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر
کی امداد دی مغربی جرمنی سے اس کو 82 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا تاوان دلوایا گیا اور
دنیا بھر کے یہودیوں نے دو ارب ڈالر سے زیادہ چندے دے کر اس کی مالی پوزیشن مضبوط
کی۔ جنگی حیثیت سے اس کو زِفرق تا بقدم اس قدر مصلح کر دیا گیا کہ جون 1967 کی جنگ
سے پہلے ہی امریکی ماہرین کا یہ اندازہ تھا کہ وہ صرف چار پانچ دن کے اندر اپنے
گرد و پیش کے تمام عرب ریاستوں کو پیٹ لے گا۔ سیاسی حیثیت سے ہر موقع پر امریکہ اور
اس کے ساتھی اس کی پشت پناہی کرتے رہے اور انہی کی حمایت کی وجہ سے اقوام متحدہ اس
کی پے در پہ زیادتیوں کا کوئی تدارک نہ کر سکی۔ نومبر 1947 سے لے کر 1957 تک اقوام
متحدہ کے 28 ریزولیشن وہ اس کے منہ پر مار چکا تھا۔ ستمبر 1948 سے نومبر 1966 تک
سات مرتبہ اقوام متحدہ نے اس کے خلاف مذمت کی قراردادیں پاس کیں، مگر اس کے کان پر
جون تک نہ رینگی۔ اس کی بے باکی کا اندازہ اپ اس سے کر سکتے ہیں کہ جون 1967 کی
جنگ کے بعد جب جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا اس وقت اسرائیل کے
وزیراعظم لیوی اشکول نے علی الاعلان یہ کہا کہ "اگر اقوام متحدہ کے 122
ممبران میں سے 121 بھی فیصلہ دے دیں اور تنہا اسرائیل کا اپنا ووٹ ہی ہمارے حق میں
رہ جائے تب بھی ہم اپنے مفتوحہ علاقوں سے نہ نکلیں گے"۔ یہ سب کچھ اسی وجہ سے
ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی حمایت کے بل پر اسرائیل تمام دنیا کی رائے کو
ٹھوکر پر مارتا ہے اور اقوام متحدہ اس کے مقابلے میں قطعی بے بس ہے۔
امریکہ
کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ کتنی بڑھی ہوئی ہے، اس کو جاننے کے لیے اپ ذرا اس رویے
پر ایک نگاہ ڈال لیں جو جون 1967 کی جنگ کے موقع پر اس نے اختیار کیا تھا۔ جنگ سے
ایک ہفتہ پہلے امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس اف اسٹاف کے صدر جنرل ویلر نے صدر جانسن
کو اطمینان دلایا تھا کہ اگر اسرائیل بڑھ کر پہلے ایک کامیاب ہوائی حملہ کر دے تو
پھر زیادہ سے زیادہ تین چار دن کے اندر وہ عربوں کو مار لے گا۔ لیکن اس رپورٹ پر
بھی جان سن صاحب پوری طرح مطمئن نہ ہو سکے اور انہوں نے سی ائی اے کے چیف ریچرڈ
ہیلم سے رپورٹ طلب کی۔ جب اس نے بھی وہیلر کے اندازوں کی توثیق کر دی تو جانسن
صاحب نے روس سے رجوع کر کے یہ اطمینان حاصل کیا کہ وہ عربوں کی مدد کے لیے عملا
کوئی مداخلت نہ کرے گا۔ اس کے بعد کہیں جا کر اسرائیل پر "وحی" نازل ہوئی
کہ اب عرب ملکوں پر حملہ کر دینے کا مناسب موقع اگیا ہے۔ اس پر بھی امریکہ کا چھٹا
بحری بیڑا مصر وہ اسرائیل کے سواحل کے قریب اپنی پوری طاقت کے ساتھ مستعد کھڑا تھا
تاکہ بوقت ضرورت کام ا سکے۔ انگریزوں کی اسرائیل نوازی کا حال یہ تھا کہ ان کا ایک
طیارہ بردار بحری جہاز مالٹا میں اور دوسرا عدن میں ایک منٹ کے نوٹس پر اسرائیل کی
مدد پر حرکت کے لیے تیار کھڑا تھا۔ جنگ کے بعد لندن سنڈے ٹائمز نے ایک کتاب شائع
کی جس کا نام تھا (THE HOLY WAR JUNE 67.) اس کا جو باب بیت المقدس پر یہودی قبضے کے بیان میں ہے اس کا
عنوان رکھا گیا ہے
(BACK AFTER 896 YEARS)
یعنی
896 برس کے بعد واپسی اب یہ ظاہر ہے کہ 896 سال پہلے بیت المقدس پر سے صلیبی
عیسائیوں کا قبضہ اٹھا تھا نہ کہ یہودیوں کا اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسرائیل کے
ساتھ انگریزوں کی ہمدردی میں صلیبی جذبہ کام کر رہا تھا اور اس لڑائی کو صلیبی جنگ
ہی کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔
روس
کی عرب دوستی کا حال بھی یہ تھا کہ جس صبح کو مصر کے ہوائی اڈوں پر اسرائیل کا
حملہ ہونے والا تھا اسی کی رات کو روس نے صدر ناصر کو اطمینان دلایا تھا کہ کوئی
حملہ ہونے والا نہیں ہے۔ عربوں کے ساتھ روس کے رویے پر یوگوسلاویہ کے ایک ڈپلومیٹ
کا یہ تبصرہ بڑا سبق اموز ہے کہ: "ایک بڑی طاقت جب تمہارا ساتھ چھوڑتی ہے تو
وہ تم کو پیراشوٹ کے بغیر ہوائی جہاز سے گرا دیتی ہے"۔
یہ ہے وہ اسباب جن کی وجہ سے یہودیوں کا تیسرا منصوبہ بھی کامیاب ہو گیا اور بیت المقدس سمیت پورا فلسطین جزیرہ نماے سینا ان کے ہاتھ آگیا۔
یہودیوں کا چوتھا منصوبہ
اب
دراصل جس چیز سے دنیا اسلام کو سابقہ درپیش ہے، وہ یہودیوں کا چوتھا اور اخری
منصوبہ ہے جس کے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب تھے اور جس کی خاطر وہ 90 سال سے
باقاعدہ ایک اسکیم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔
اس
منصوبے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں۔ ایک یہ کہ مسجد اقصی اور قبہ صغری کو ڈھا کر
ہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر کیا جائے۔ کیونکہ اس کی تعمیر ان دونوں مقامات مقدسہ کو
ڈھائے بغیر نہیں ہو سکتی۔ دوسرے یہ کہ اس پورے علاقے پر قبضہ کیا جائے جسے اسرائیل
اپنی میراث سمجھتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس منصوبے کے ان دونوں اجزاء کو ہر مسلمان
اچھی طرح سمجھ لے۔
جہاں
تک پہلے جز کا تعلق ہے، اسرائیل اسے عملی جامہ پہنانے پر اسی وقت قادر ہو چکا تھا
جب بیت المقدس پر اس کا قبضہ ہوا تھا۔ لیکن دو وجوہ سے وہ اب تک اس کام میں تامّل
کرتا رہا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے سر پرست امریکہ کو دنیائے اسلام کے
شدید رد عمل کا اندیشہ ہے۔ دوسرا یہ کہ خود یہودیوں کے اندر مذہبی بنیاد پر اس
مسئلے میں اختلاف برپا ہے۔ ان کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہیکل کی تعمیر نو
مسیح ہی ا کر کرے گا، جب تک وہ نہ ا جائے ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ان کے قدامت
پسند گروہ کا خیال ہے۔ دوسرا گروہ جو جدت پسند ہے اور جس کے ہاتھ میں دراصل اس وقت
اسرائیل کی اقتدار کی باگے ہیں کہتا ہے کہ قدیم بیت المقدس اور دیوار گریہ پر قبضہ
ہو جانے کے بعد ہم دورِ مسیحائی( MESSIANIC ERA)
میں
داخل ہوچکے ہیں۔ یہی بات یہودی فوج کے چیف ربی نے تورات ہاتھ میں لے کر اس روز کہہ
دی تھی جب بیت المقدس کی فتح کے بعد وہ دیوار گریہ کے پاس سامنے کھڑا تھا۔ اس کے
الفاظ یہ تھے کہ "آج ہم ملت یہود کے لیے دور مسیحائی میں داخل ہو رہے
ہیں۔" انہی دو وجوہ سے مسجد اقصی کو یک لخت ڈھا دینے کے بجائے تمہید کے طور
پر اس کو آگ لگائی گئی ہے تاکہ ایک طرف دنیا اسلام کا رد عمل دیکھ لیا جائے اور
دوسری طرف یہودی قوم کو آخری کاروائی کے لیے بتدریج تیار کیا جائے۔
دوسرا
جز اس منصوبے کا یہ ہے کہ "میراث کے ملک" پر قبضہ کیا جائے۔ یہ میراث کا
ملک کیا ہے؟ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کنندہ ہیں :
"اے اسرائیل تیری سرحد نیل سے فرات تک ہیں۔"
دنیا میں صرف ایک اسرائیلی ہی ایسا ملک ہے جس نے کھلم کھلا دوسری قوموں کے ملک پر قبضہ کرنے کا ارادہ عین اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر ثبت کر رکھا ہے۔ کسی دوسرے ملک نے اس طرح علانیہ اپنی جارحیت کے ارادوں کو اظہار نہیں کیا ہے۔ اس منصوبے کی جو تفصیل صیہونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، پورا اردن، پورا شام، پورا لبنان، عراق کا بڑا حصہ، ٹرکی کا جنوبی علاقہ، اور جگر تھام کر سنیے کے مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ اگر دنیا عرب اسی طرح کمزور ہی رہی جیسی اج ہے اور خدا نہ خواستہ دنیا اسلام کا رد عمل بھی مسجد اقصی کی اتش زدگی پر کچھ زیادہ موثر ثابت نہ ہو سکا، تو پھر خاکم بدہن ایک دن ہمیں وہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ جب یہ دشمن اسلام اپنے ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کے لیے پیش قدمی کر بیٹھیں گے۔
پس
چہ باید کرد
حضرات
! اتنی تفصیل سے میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ پیش نظر مسئلے کی پوری نوعیت نزاکت
اور اہمیت اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے چند باتیں بخوبی
واضح ہو جاتی ہے :-
اول
یہ کہ یہودی اج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی
طاقتیں ان کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں اور ان کے اس روش میں ائندہ بھی کسی تغیر
کے امکانات نظر نہیں اتے۔ خصوصا امریکہ کی پشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی
بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔
دوم
یہ کہ اشتراکی بلاک سے کوئی امید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے وہ اسرائیل کا ہاتھ
پکڑنے کے لیے قطعا کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ اپ اس سے ہتھیار لے
سکتے ہیں۔ اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کے اشتراکیت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالیں
اور اسلام کو دیس نکالا دے دیں۔
سوم
یہ کہ اقوام متحدہ، ریزولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کر سکتی۔ اس میں یہ دم
خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔
چہارم
یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے 22
سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کر دی ہے۔
ان
حقائق کے سامنے ا جانے کے بعد نہ صرف مسجد اقصی بلکہ مدینہ منورہ کو بھی انے والے
خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے
مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقامات مقدسہ کو
مستقل طور پر محفوظ کر دینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ
فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنایے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے
رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے، مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا
کہ نہیں یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجد اقصی کے سانحہ
سے ان کی انکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات اگئی ہے کہ سہونیت کی
عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جبکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت
بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ 60
لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو 70 ، 75 کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں۔ اور ان کی 30 ،
32 حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو، اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے
سربراہ اگر سر جوڑ کر بیٹھیں، اور روے زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی
پشت پر جان و مال کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جائیں تو اس مسئلے کو حل کر
لینا، انشاءاللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔
اس
سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل
مسئلہ مسجد اقصی کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصی محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت
المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک فلسطین
پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے ازاد
کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی
فلسطین میں اباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔ باقی جتنے یہودی 1917 کے
بعد سے اب تک وہاں باہر سے ائے، اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں
نے سازش اور جبر و ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن
بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توصیح کی جارحانہ منصوبے
بنا کر اس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ
شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ
اپنی جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی ایک کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود
بجائے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور عالم اسلامی کے لیے اس
سے بھی بڑھ کر وہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں
کے مقامات مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو ختم
ہونا چاہیے۔ فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بنی چاہیے جس میں ملک کے
پرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں
اور باہر سے ائے ہوئے ان غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن
اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس
کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکہ، جو اپنا ضمیر یہودیوں کے
ہاتھ رہن رکھ کر اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت
کر رہا ہے، تو اب وقت اگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کو صاف خبردار کر دیں کہ
اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے
گا جس کے دل میں اس کے لیے کوئی ادنی درجے کا بھی جذبہ خیر سگالی باقی رہ جائے۔ اب
وہ خود فیصلہ کر لے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔
سانحہ
مسجد اقصیٰ
مولانا
سید ابوالاعلیٰ مودودی (رح)

