- اسلام کے ماننے والوں کی بنائی تھی وہ کیسے اور کن لوگوں نے اپنے عمل کے ذریعے سے دریا برد کردیا۔
- مسافر کے لئے کچھ سہولت فراہم کردوں، یہ معاملہ مجھے اپنے وطنی بھائیوں کے ساتھ کرنا چاہیے۔
- جیسے ایک سفر میں اصحابِ رسول میں سے چند نے نفل روزے رکھے تھے
- جہاں پڑاو ڈالتے روزہ دار گرمی اور روزوں کے وجہ سے نڈھال ہوجاتے تھے
پروسوں مجھے تپٹورو سے بنگلورو کے لئے تین گھنٹے کا سفر بذریعے ریل جانا ہوا۔ احتیاتاً میں نے اپنی سیٹ بک کرالی تھی۔ تین سیٹوں والی سیٹیں تھی۔ ونڈو کی پہلی سیٹ دوسری کے بعد تیسری میری سیٹ تھی۔ ونڈو اور دوسری سیٹ میں دو حضرات بیٹھے تھے۔ وہ دونوں داونگرے سے بنگلورو جارہے تھے۔ میرے بازو والے حضرت کا چہرا اسلام کا نمونہ پیش کررہا تھا۔ پاک صاف تھے، چہرے پر گھنی داڑھی تھی، لمبا کرتا پہنے ہوئے تھے، عمر یہی کوئی پچپن ساٹھ کے درمیان رہی ہوگی۔
بات کرنے کی میں نے کوشش کی مگر نہی ہوسکی، میں جو پوچھتا اس کا وہ صرف ہاں یا نا میں جواب دیتے تھے، انہوں نے مجھ سے کچھ سوال نہی کیا۔ میں بھی خاموش ہوگیا، شاید میرا ان سے بات کرنا ناگوار لگ رہا ہو۔وہ دونوں آپس میں بھی ہلکی پھلکی باتیں کررہے تھے۔
بسکٹ کھاتے ہوہے انہوں نے مجھے پیشکش کی۔ میں تھوڑی
معزرت کے ساتھ "کراکجاک" کی دوبسکٹیں اٹھالی۔
بسکٹ کھانے کے بعد میں نے ان سے معزرت کی کے ذرا چھوٹا
ہوکر بیٹھیں، تھوڑا سکڑ جائیں، مگر انہوں نے ٹرین کی سیٹیں چھوٹی ہونے کی
شکایت کردی۔ اور میرے حصّے کی کچھ جگہ پر بیٹھنا اپنا حق سمجھ لیا۔ مجبوراّ مجھے
ہی زیادہ سکڑ کر بیٹھنا پڑا۔
چند لمحوں میں ہی میں نے ان کی دین داری دیکھ بھی لی
اور سمجھ بھی لی، ہندوستان میں کوویڈ کی وباء کے دوران مسلمانانِ ہند کی خدمات جو
اُس نازک وقت میں اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر انجام دی گئیں تھیں اسلام کے ماننے
والوں کی بنائی تھی وہ کیسے اور کن لوگوں نے اپنے عمل کے ذریعے سے دریا برد کردیا۔
دین کو لوگوں نے وضع قطع کے اندر ڈال کر قید کردیا ہے۔
قران حدیث کی تعلیمات یہ ہیں کہ انصاف کا معاملہ کرو، احسان کا معاملہ کرو۔ انصاف
یہ ہے کہ میں اپنی سیٹ ہی میں بیٹھوں اور اس بات کا خیال رکھوں کہ دوسروں کی
سیٹ کا تھوڑا حصہ بھی اپنے استعمال میں نہ آنے دوں۔ اور یہ معاملہ میں اِس ملک میں
اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کروں۔ احسان کا معاملہ یہ ہے کہ میں اپنی سیٹ پر کچھ
سکڑ کر بیٹھ جاوں، ساتھ والے مسافر کے لئے کچھ سہولت فراہم کردوں، یہ معاملہ مجھے
اپنے وطنی بھائیوں کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اس طرح کی خاموش تبلیغ اتنی عام ہوجائے کہ
لوگ مسلمانوں کے ساتھ سفر کرنے میں خوشی کریں۔ اسلام کو اپنے اندر سے زیادہ اپنے
اطراف کے ماحول میں زیادہ پھیلائیں،اسلامی تعلیمات ہم اپنے اندر جذب کریں اور عمل
سے پھیلائیں۔
روزمرّہ کی زندگی میں ہمیں اخلاق کا مظاہرہ آئے دن
دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔محتاج ضرورت مند بیٹھنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے
ہوکر سفر کرتے ہیں تو اکثر لوگ اپنے جگہ کو دوسرے کے لئے قربان کردیتے ہیں۔ اور یہ
اخلاقیات دنیا کے تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے.
ہم تو بہترین گروہ کے لوگ ہیں، خیرِ امّت ہیں۔ ہمیں تو
اس سے آگے والے کام کرنا چاہیے۔ بہت سے ایسے مواقع ہم کو روز مرّہ کی زندگی میں
وقفے وقفے سے ملتے رہتے ہیں۔ اُن موقوں پر اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر
عمل کرکے خاموشی سے اسلام کی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند
کرتا ہے۔ واللہ یحب المحصنین۔ ایسے معاملات ہر لمحہ اور ہر گھڑی اور سب کو میسّر
نہی آتے، جب ایسے مواقع آتے ہیں تو اپنے اعمال کے رجسٹر میں نیکی کا پلڑا بھاری
کرانے کا موقع ہے۔ جو کسی صورت بھی کھونا بیوقوفی ہے۔
سفر کے بارے میں جو واقعات رسولِ اللہ سے منقول ہیں، اس
میں ہمارے لئے بڑی نصیحتیں ہیں۔ جیسے ایک سفر میں اصحابِ رسول میں سے چند نے نفل
روزے رکھے تھے جہاں پڑاو ڈالتے روزہ دار گرمی اور روزوں کے وجہ سے نڈھال ہوجاتے
تھے، روزہ نہ رکھنے والے تازہ دم رہتے وہ اپنے اور روزہ داروں کے سواریوں کو چارہ
پانی کا انتظام کرتے اس بات کا جب رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا تو آپؐ نے فرمایا:
روزہ چھوڑنے والوں نے سارا اجر لوٹ لیا۔ ہمارے زیادہ تر
معاملے مشرکوں سے آئے دن ہوتے رہتے ہیں، ہم اپنے نبیؐ کی سیرت اور کلام اللہ کی
ہدایت پر عملی نمونہ نہیں بنیں گے تو ہم پر دھتکار اور پھٹکار پڑتی رہی گی۔ ہودیوں
پر پھٹکار پڑنے کی وجہ وہی رہی ہے جو آج ہمارا عمل ہماری تعلیمات کی نفی کرتا ہے۔
عبدالعلی
بن عبدالقدیر اصلاحی
ہاسن


.jpg)