جماعت اسلامی ہند ہاسن
میں-
مولانا عبدالقدیر اصلاحی
بچوں اور بڑوں کو پڑھانے سے لیکر ہر جمعہ کو پابندی کے ساتھ گلن ہلی کا دورہ ،جمعہ
کا خطبہ، اور پھر ہر ایک سے ملاقات ،کبھی محمد پور والے جمعہ خطبہ کے لئے بلا لیتے
تو کبھی ارےہلی مولاناعبدالقدیر اصلاحی صاحب عبدالستار صاحب کو اس کی اطلاع دیتے
اورعبدالستار صاحب کو لیکر محمد پور ساتھ تشریف لیجاتے۔عبدالستار صاحب نے مجھے
بتایا کے محمد پور والے گائے کا گوشت کھلانے کو عیب سمجھتے ہوئے مولانا عبدالقدیر
اصلاحی کی آمد پر مرغی پکا کر اپنی عقیدت کا ثبوت دیتے تھے۔جماعت کے دعوتی کام کے
سلسلے میں جاوگل میں ایک مسجد میں اعلان اور اس اعلان پر نوجوانوں کا ہنگامہ کھڑا
ہونے پر گلن ہلی کے صادق صاحب کا ڈانٹ پھٹکار کر خاموش کرانا اور مولانا کے بیان
کو جاری رکھوانا۔جاوگل کے بابا سے ملاقات کرنا اور جماعت کے پروگرام کی دعوت دینا۔
بی اماں (ڈاکٹر ماہر کی دادی) کے گھر سیرت کے پروگرام میں خطاب کرنا غرض یہ سب کام
چند گنے چنے لوگوں سے ہوتا رہا۔گلن ہلی کا دورہ سالگام کے راستے یا پھر بیلور روڈ
کے راستے مارچ اپریل کی گرمیوں میں بھی کیچڑ کے راستے سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا۔آنے
اور جانے کے لئے گھنٹوں بس کا انتظار کرنا تھا۔وہ بھی پرائیویٹ بسیں تھیں۔بیلور
روڈ کے راستے ہو یا سالگام کے راستے گلن ہلی کو جانا تو پیدل یا پھر بیل گاڑی
سے۔صبح اور شام فجر کے بعد اور مغرب کے بعد مکتب۔جعفر صادق صاحب کے گھر
پڑھانا۔شفیع صاحب کے گھر۔ابرار رشید صاحب کے گھر۔سالار صاحب کے گھر۔پھر دوکان پر
کچھ لوگ پڑھنے آجاتے حافظ عبدالغفار صاحب وغیرہ۔ہفتہ واری اجتماعات کی تیاری۔طالب
علموں میں تقریری صلاحیت پیدا کرنا۔بیت بازی کے اشعار یاد کرانا۔قرات حمد و نعت کی
مشق کرانا.بچوں کے ہفتہ واری اجتماعات میں یہ سب مظاہرے دیکھنے میں ملتے تھے۔کبھی
جماعت کی آفس میں تو کبھی نور محمد صاحب کے گھر تو کبھی محترمہ اختر جہان آپا کے
گھر(شافعی مسجد کے سامنے) تو کبھی ان کے دیور کے گھر الغرض جن کے گھر بڑے تھے
ان گھروں میں بچوں کے اجتماعات ہوئے ہیں۔ اللہ تعالئ نے ان کے کام میں خوب
برکت دی تھی لوگ ان کی بیحد عزت و احترام کرتے تھے۔اپنے نجی معاملات میں مولانا
عبدالقدیر اصلاحی صاحب کو فریق بناتے۔ان کے چاہنے والوں نے ان کا ہر طرح سے خیال
رکھا۔ ١٩٦۵ سے پہلے مولانا عبدالقدیر اصلاحی کی فیملی
بہار ہی میں تھی۔یہاں مولانا کے کھانے اور پکانےکے لئے کوئی مشکل نہیں تھی۔ یہاں
پر مولانا کے کھانے کا انتظام رفقاء نے اپنے ذمہ لیا تھا۔روزانہ رات کا کھانا سفیر
محمد صاحب کی بہن ساجدہ آپا خود بنا کر بھیجا کرتیں تھیں۔ جسے رات میں کھاکر
مولانا باقی روٹیاں صبح ناشتے کے لئے رکھ لیتے تھے۔صبح بدرو بھیا یا سرور بھیا
وغیرہ ان روٹیوں کو ایک گلاس دودھ میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ڈالتے تھے۔ رات کی بنی
ہوئی روٹیاں تھوڑی سخت ہوجاتیں دودھ میں تھوڑی دیر بھیگنے سے نرم ہو جاتی
تھیں۔روٹیوں کو دودھ میں بھیگونے والے بدرو بھیا وغیرہ بڑے پسند سےچند ٹکڑے اپنے
حلق میں بھی اتار لیتے تھے۔
مولانا عبدالقدیر اصلاحی کچھ سال ہاسن میں رہنے کے بعد
واپس اپنے گھر دوبارہ نہ آنے کے ارادے سے بہار جانے کا فیصلہ کیا تو مولانا کے
شاگردوں نے ایک جلسہ رکھ کر ان کو سینڈ آف دیا۔ اس جلسے میں ان کے شاگردوں نے رو
رو کر سینڈ آف کیا اپنے شاگردوں کی محبت دیکھی تو ان کو اپنا ارادہ متزلزل ہوتا
دکھائی دیا۔
مولاناجب اپنی فیملی ہاسن لائے تو جن کے پاس گھر تھا
انہوں نے اپنا گھر پیش کیا۔چند مہینے آنٹی نور خالہ کے گھر پھر کچھ مہینے
عبدالسلام صاحب کے گھر پھر خورشید صاحب کے گھر آخر میں قمرو بدرو بھائی کی والدہ
کی نگرانی میں جو گھر تھا وہ گھر میں شہاب الرحمان صاحب مقیم تھے ان کے "کے
آر پورم" منتقل ہونے پر مولانا عبدالقدیر اصلاحی کے لئے دیا گیا۔لوگوں نے ہر
طرح سے خدمت کی ہر طرح ان کا خیال رکھا۔اس زمانے میں پکوان وغیرہ کے لئے لکڑیوں کا
استعمال کثرت سے ہوتا تھا۔صبح چولہا جلتا تو رات ہی کو آگ ٹھنڈی ہوتی تھی۔جلانے کی
لکڑی فیروز صاحب اپنی کوہ نورسامل سے بھیجا کرتے تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے شیموگہ سے
جماعت کا ایک وفد آیااور مولانا عبدالقدیر اصلاحی سے ملاقات کی اور اپنے یہاں چل
کر کام کرنے کا آفر دیا۔مولانا عبدالقدیر صاحب نے فورا حامی بھر لی اور ساتھ چلنے
پر انتظار کرایا اور بیگ تیار کیا اور یہاں ذمہ داروں سے اسکی اطلاع دینے چلے گئے۔
فیروز صاحب سے ملاقات کی
اور اپنے جانے کا سبب بتایا۔فیروز صاحب مولانا سے چمٹ گئے۔اور انہوں نے اس بات پر
راضی کر لیا کے مولانا ہاسن چھوڑ کر نہیں جائینگے۔پھر انکی ایماء پر مولانا
عبدالقدیر صاحب کی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا۔تین سو سے بڑھا کر سات سو کردی
گئی۔سلام صاحب کے ذمہ پیسوں کی وصولی تھی سائیکل سے وہ دوکان دوکان گھوم گھوم کر
وصول کیا کرتے تھے.
فیروز
صاحب نے صرف اتنا ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے منسیپا لیٹی سے اپنےرسوخ استعمال کرتے
ہوئے بس اسٹینڈ روڈ پر ایک دوکان کی جگہ لیکر وہاں پر اپنی سامل کے تختوں سے ایک
دوکان بنوا کر مولانا عبدالقدیر صاحب کے حولے کردی۔جو پورے شہر ہاسن میں"
ہاسن بک ہاوس" کے نام سے مشہور تھی۔اس دوکان سے بھی بہت سے جماعت کے کام
انجام پاتے رہے،آج بھی بہت سے رفقاء کے گھروں میں اس دکان سے خریدی ہوئی تحریکی
کتابیں پائی جاتی ہیں ۔جن پر ہاسن بک ہاوس کی مہر لگی ہوئی ہوتی ہے۔
اسی اثناء میں آذاد صاحب کے مکان کے سامنے ایک جگہ کہ
مالک زمین بیچ رہے تھے۔اس زمین کومولانا عبدالقدیر اصلاحی خریدنا چاہتے تھے مگر ان
کی جیب خالی تھی اور خریدنے کے لئے بیس ہزار کی رقم درکار تھی۔ معاملہ یہ تھا کے
ہر دوکان میں کچھ نہ کچھ ادھار باقی۔ چاہے وہ آذاد اسٹور، ہو یا بی یس سی ،یا رلیبل فٹ ویر ،یا فیروز سیکل مارٹ، یا غوث محی
الدین ،غرض ہر جگہ پر کچھ نہ کچھ ادھار رہتا تھا۔مہینہ بھر کی آمدنی مہینہ کے ختم
ہونے سے پہلے پہلے ختم ہوجاتی تھی۔ مولانا نے عبدالقدوس صاحب سے اسکا ذکر کیا اور
ایک سال میں ادا نہ کرنے کی صورت میںوہ زمین بیچ کر رقم حاصل کرلی جائیگی۔
عبدالقدوس صاحب حرکت میں آیے، اور سلام صاحب سالار صاحب
فیروز صاحب اور عبدالرشید صاحب ابرار ٹکسٹائل سے اس کا ذکر کیا اور وہ۔زمین
کی ڈیل کامیابی کے ساتھ ہوگئی اور جس پر آج ایک عالی شان عمارت کھڑی ہے۔اور جس پر
مولانا اصلاحی کا ایک ٹکڑا قیام کرتا ہے۔
عبدالعلی چامراج پیٹ
بنگلورو۔
