السلام علیکم محترم جعفر صادق صاحب کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں، جعفر صادق صاحب جیسی شخصیت کے
بارے میں الفاظ ادا کرنا میرے بس کی بات نہیں۔میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان کے بارے
میں آپ کے سامنے آکر کچھ کہ رہا ہوں ۔ میں بس یہی کہوں گا کہ میں نے ان کو جو قریب
سے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے۔بس وہی چیزیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
جعفر صادق صاحب کی تعزیتی نشست اسلامک سنٹر میں جو
منعقد ہوئی تھی۔ اگر وہ شام مغرب بعد منعقد ہوتی تو بہت سے لوگوں کو اس نشست کا
فائدہ اٹھالیتے ۔ جماعت کے پروگراموں میں کھانے کی دعوت کو لے کر اصراف
خرچ سے ہمیشہ بچتے،اور پورا زور لگا کر اپنا موقف رکھتے وہ بریانی اور گوشت جیسے
پکوان کی فضول خرچی سے جماعت کو بچاتے اور دال کھانا جیسی کنجوسی کرنے بھی نہی
دیتے بلکہ درمیانی راہ اختیار کرتےہوئے فراغ دلی کے ساتھ دال کھانے میں اچار کا
اضافہ کردیتے تھے۔اور کبھی کبھی کارکنوں کا زیادہ اصرار ہوتا تو کارکنوں کا دل
رکھنے کے لیے پلاؤ کے لیے بھی اکثر راضی ہو جاتے تھے۔
میں ذاتی طور پرمیرے دماغ میں جعفر صادق صاحب کی تصویر
ایک کنجوس انسان کی تھی۔اور یے تصویر میرے زہن میں ایک بڑے وقت تک قائم رہی۔ہوا یے
کے ان کی دوکان برائٹ پلاسٹک کی تجدید کاری کے لئے کارپنٹروں کو کام کرنے کے لئے
میخیوں کی وقتا فوقتا ضرورت پڑتی رہتی تھی۔ تب تب کارپنٹر میخوں کا تقاضہ کرتے
رہتے تھے۔ جعفر صادق صاحب میخ اس وقت تک نہی منگوانے جب تک کے ایک ایک ٹیڑھی میخ
سیدھی ہوکر اپنی جگہ نہی پہنچ جاتی۔دوکان میں گری پڑی ٹیڑھی مینخ اٹھاکر دیتے، اور
کہتے اسے سیدھی کرکے ٹھوک دے۔ یہی وہ واقعہ تھا جس سے میں نے اپنے ذہن میں انکی
شخصیت کو کنجوس اور بخیل کی سی تصویر بنا لی تھی۔ایک اور واقعہ ایسا ہوا کہ جس سے
میرے ذہن میں اپنی بنائی ہوئی اس تصویر کو کھرچ کھرچ کر نکالنا پڑا۔ واقعہ
یہ ہے کہ ان بڑے لوگوں کے ساتھ ہمارا کوئی لین دین نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے
تو نہ کے برابر ،ایسے لوگوں کے ساتھ ذہن میں جو ایک بار تصویر بن جاتی ہے اس تصویر
کو نکال پھینکنا اور اس کی جگہ اصل تصویر لگانا اتنا جلد ممکن نہیں ہوتا۔ہوا یہ کہ
ایک مرتبہ میں ان کی دکان پر پلاسٹک کی رسی کا ایک بنڈل خریدنے کے لیے گیا،میری
ضرورت اتنی کم بھی نہی تھی کہ میں مانگ کر اپنی ضرورت پوری کرتا۔ان کا بیٹا انظر
رسی کے بنڈل کو تول لگا کر مجھے دینے لگا۔میں نے انظر سے چھوٹا رول دینے کو
کہا،کیونکے ترازو میں جو بنڈل دے رہا تھا وہ کافی بڑا اور میری ضرورت سے زیادہ
تھا۔صادق صاحب میری ضرورت کو بھانپ گئے۔وہ فورا اٹھے کیش کاونٹر چھوڑ کر ہمارے پاس آئے اور کہارسسی کس لئے اور کتنی چاہیے؟اتنی زیادہ رسسی لے کر تو کیا کریگا؟
پھر انہوں نے اپنے دوکان کے استعمال میں آنے والی رسس
کو اس زور سے کھینچا اور پوچھا، دیکھ اور ہونا؟میں نے کہا کافی ہے۔مگر میرے کہنے
پر بھی انہوں نے مزید دو بار رسسی کھنچ کھینچ کر ڈال رہے تھے۔اور کہ رہے تھے کیوں
اتنی سی رسسی کے لئے فضول میں پیسہ خرچ کرنا اچھی بات نہیں۔ان کا یہ عمل میرے ذہن
سے ان کی تصویر جو میں نے بنائی تھی وہ یک لخت چکنا چور ہوگئی۔اس کے بعد میرا
معمول ہوگیا کہ میں جب بھی انظر خضر سے ملاقات کے لئے برائٹ پلاسٹک جاتا جعفر صادق
صاحب کے ساتھ دو چار منٹ وقت گزار لیتا،جیسے جیسے میں ان کے قریب ہوتا گیا،میں نے
جو ان کی تصویر اپنے ذہن میں بنالی تھی الحمداللہ وہ میرے ذہن سے غائب
ہوگئی۔ میں جوں جوں ان کے ساتھ وقت گزارتا میرے دل میں ان کی عظمت میں اضافہ ہی
ہوتا رہا،دھیرے دھیرے میں ان سے بے تکلف سا ہوگیا،کبھی ان کے سامنے زبان کھولنے سے
بھی ہچکچاتا تھا اور اب حال یہ کے ان کی کسی بات پر اختلاف تک کرڈالتا،وہ اپنے
موقف کے صحیح ہونے کے دلائل بھی دیتے اور کسی بات پر ان کے دئے ہوئے دلائل پر بھی
میں قائل نہیں ہوتا تو وہ آخر میں بس اتنا کہہ کر رہ جاتے،"ہوں چپ بیٹھ تجھے
معلوم نہی ہوتا"
اور میں نے آج تک
ایسا سخی اور نیک دل انسان نہی
دیکھا۔اور یہ واقعہ مجھے برسوں تک ملامت کرتا رہا کہ ایک سخی انسان کو کنجوس
سمجھتا رہا۔
برائٹ پلاسٹک میں کام کرنے والا اسٹاف ایک بار جب دوکان
پر آجاتا تو وہ نکالے نہی نکلتا تھا۔
ان میں دو کے نام مجھے آج تک یاد ہیں۔ایک کا نام رنگ
سوامی سینیر۔دوسرا کا نام رنگ سوامی جونئر۔بڑا رنگ سوامی تیز اور سخت دوسرا نرم
طبعیت کا۔جماعت کے کاموں میں ان کا گھر ہی نہی یہ رنگ سوامی وغیرہ بھی پیش پیش رہے
ہیں۔
جعفر صادق صاحب کے تعلقات جماعت کیلئے ینگ جنریشن کو
جماعت سے قریب کرنا تھا۔
صادق صاحب کی کوشش ان جماعت مخالف لوگوں کے غضب کو
جماعت کے حق میں ٹھنڈا کرنا تھا۔شدید عداوت رکھنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوتا
تھا۔کے آر پورم کا مدرسہ شاہ جماعت سے ان کے تعلقات زیادہ تھے۔وہاں کے اساتذہ اور
معلمیں سے ان کے تعلقات رہتے تھے۔ان کی دوکان برائٹ پلاسٹک جماعت کے دفتر کی
حیثیت رکھتا تھا۔جہاں پر ہر قسم کے لوگ ملنے کے لئے آتے بحث مباحثے کے ذریعے لوگوں
پر اپنے تائثرات رکھتے۔جماعت کے افراد سے زیادہ جماعت کے مخالفین کا ہر طرح سے
خیال رکھتےتھے۔نشانہ بنا کر کام کرنا ان کی ایک خاص عادت تھی۔نئی جنریشن کو آگے
بڑھانا۔نئے افراد کو پرانے پر مقدم رکھنا ان کی وہ خوبی تھی جس سے ہر نیا فرد ان
کو اپنا محسن اور ہمدرد سمجھتا تھا۔
درس قران اور درس حدہث کا ان کا انداز بھی نرالا
تھا۔دوران درس اگر ڈر اور خوف کا ذکر ہوتا تو وہ خود سہمے ہوئے بیان کرتے اور اگر
کوئی سخت بات کا یا تنبیہ کا ذکر ہوتا تو وہ ان کی آواز بلند ہوجاتی اور اس طرح
بیان کرتے کے وہ سب کچھ اب ہونے ہی والا ہے۔جمعہ خطبہ بھی بیجا طول دینے سے پرہیز
کرتے۔مختصر اور آسان فہم میں الفاظ کو ادا کرتے۔ایسی بات کہتے کے دوکاندار اور
نوکر سب اچھی طرح سے سمجھ جاتے۔
ان کے دروس کا مرکزی موضوع اکثر تقوئ اور انفاق
ہوتا تھا۔تقوئ اور انفاق پر آیات کوڈ کرنے اور اس کی اچھی تشریح کرنے میں
کافی مہارت حاصل تھی۔وہ اپنے آپ کو ان آیات کا مصداق بناتے اور تقوئ کے ظاہری عمل
سے زیادہ قرانی عمل پر خود کو بھی اور دوسروں کو بھی توجہ دلاتے۔اکثر ان کے دروس
سن کر ہمایون پاشا ہم لوگوں کو اپنی گفتگو میں تقوے کا درس دیتے رہتے اور بات بات
پر جعفر صادق صاحب کے درس کا حولہ دیا کرتے تھے۔(نیکی یہ نہی کے تم نے اپنے چہرے
مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کرلئے)جب تک اپنا پسندیدہ مال اللہ کے راستے میں خرچ
نہی کرتے تقوے کی راہ نہیں پاسکتے۔انفاق اور تقوئ بڑے پسندیدہ سبجکٹ تھے۔ہم
کارکنوں کی حوصلہ افزائی کو کافی اہمیت دیتے کارکنوں کے چھوٹے عمل کو بڑھا کر
بتاتے جس سے کافی تقویت ملتی۔
آفات سماوی کے متائثر افراد کی امداد کے لیے جعفر صادق
صاحب گھڑوں کو خود پکڑتے ہوئے راستوں میں چندہ مانگتے دیکھے گئے۔کسی نے مزاق سے
کہا کیا صادق بھئی آپ راستوں میں گھڑا پکڑے بھیک مانگ رہے ہیں۔تو جعفر صادق صاحب
نے برجستہ کہا ایسی بھیک کی جب جب بھی ضرورت پڑے گی میں راستے پر آنا پسند کروں
کا۔
صادق صاحب کا یہ جملہ ہمارے مرحوم اسماعیل خان
(امجد)اکثر اس طرح کے کاموں کو اپنے آپ کو پیش کرنے کے لیے ادا کرتے تھے۔
مریض کی عیادت کے لئے دور دور کا سفر صرف عیادت کی غرض
سے کرتے۔خود بیمار ہوتے ہوئے بھی مریضوں کی عیادت کرنے کے عمل کو حسن خوبی سے
انجام دیتے۔رشتے داروں کے یہاں آنا جانا مزاج پرسی عیادت ہنسی خوشی کے تمام
ہی موقوں پر جعفر صادق صاحب کی غیر موجودگی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔رفقاء کے
خوشی و غم میں خصوصی طور پر عیادت و تعزیت وغیرہ میں پیش پیش رہنے والے جعفر
صادق صاحب سے آج جس طرح ان کا خاندان یتیم ہوا ہے۔اتنا ہی یتیمی کا داغ جماعت
اسلامی ہند پر بھی پڑا ہے۔
اس سے پہلے جب صدراللہ خان صاحب ہاسن کے امیرمقامی بنے
تو ان کی امارت میں شہر میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی،جسے ہاسن کی تاریخ برسوں یاد
رکھے گی۔غالبا "کاروان امن و انصاف" تھی جس کی تفہیم کے لئے حلقے کی طرف
سے امین الحسن صاحب تشریف لائے تھے۔جعفر صادق صاحب نے اس مہم کی ریلی اور پروگرام
کو جنگی لیول پر پہنچانے کی انتھک مہنت کرڈالی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے اس
ریلی اور پروگرام کو بلندیوں پر پہنچایا تھا۔مگر افسوس کے جس دن ریلی اور پروگرام
ہونا تھا اسی دن جعفر صادق صاحب کو حج کے لئے نکلنا پڑا۔واقع ہم کارکنوں نے اس سفر
کو صدمے کی طرح برداشت کیا۔ہم نے انہیں گھر جاکر حج کے لئے وداع نہی کیا،بلکے وہ
وداع ہونے کے لئے ہم کارکنوں سے ملنے پروگرام کے میدان میں آکر ہم سب سے بغل گیر
ہوتے ہوئے وداع ہوئے تھے۔ ان کا حج کے لئے میدان سے نکلنا ہم کارکنوں کو مزید
تقویت کا باعث بن رہا تھا۔ اور ہم یہ سوچ کر کے اس پروگرام کو کامیاب کرنے کے لئے
ہمارے رفقاء کا ایک گروپ حج کے سفر میں بھی دعاء گو ہے۔
بنگلورو کے ففرو الہ اللہ کی تین روزہ کانفرنس میں ایک
مہینہ پہلے ہی جعفر صادق صاحب کو کانفرنس کے انتظامات کے سلسلے میں جانا پڑا۔اور
وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی ذمہ داری میں جٹے رہے،اتنا ہی نہی کے اس کانفرنس تک
ہی اپنی ذمہ داری نبھائی بلکے کانفرنس کے ختم ہونے کے بعد بھی پورے کام ختم
کرکے سامانوں کا ڈسپیاچ،حساب کتاب،اپنی ذمہ داری کو پوری طرح تکمیل تک پہنچا کر
میدان خالی کرنے کا نام محمد جعفر صادق ہے۔پروگرام سے پہلے اور پروگرام کے بعد تک
اپنی پوری ذمہ داری کو پائے تکمیل تک پہنچانا یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
اس کے لئے بہت بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف جعفر صادق صاحب کے
پاس تھی۔
اسی طرح ان کے کام کا اثر تھا یا کیا تھا۔جعفر صادق
صاحب کی اس اچھائی کو اڈاپٹ کیا تھا یا کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔ایگزیبیشن
گراونڈ میں ایک روزہ اجتماع تھا،اس پروگرام کی تیاریاں بھی بڑے زور و شور سے تھیں
اور اس پروگرام کے روح رواں فیروز نصرت رحیم صاحب تھے۔ارے ہلی کی جماعت واچ اینڈ
وارڈ کی خدمات پر مامور تھی،اس پروگرام کے ختم ہونے کے چند گھنٹوں میں ہاسن کے
رفقاء سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ارے ہلی کے رفقاء جن کے ذمہ واچ اینڈ وارڈ کی ذمہ
داری تھی۔ان کے پاس معقول عزر تھا انہوں نے عزر کو پیچھے کیا اور اپنی ذمہ داری کی
تکمیل کے لئے وہاں دو دن تک ٹہرے رہے۔سوال یہ ہے کہ ان کو اس پر عمل کرنے کی تقویت
کہاں سے ملی؟ہو نا ہو جعفر صادق صاحب کی مثال کو ہی انہوں نے اڈاپٹ کیا ہے۔میرے
اس قیاس کو تقویت اس لیے بھی ملتی ہے کہ اس کردار کو ادا کرنے والےشخص محمد جعفر
صادق تھے جسے ہم میں سے بہت سے لوگ اس کردار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس
کیا ہے۔
مرحوم جعفر صادق صاحب اپنے دل میں میری تصویر کچھ ایسی
بنالی تھی اور اس کا ذکر بھی ایک محفل کے سامنے کرڈالا جسے سن کر میرا دل باغ باغ
ہوگیا،وہ یہ کہ "علی" تیری حیثیت اس جماعت کے اندر ایسی ہی ہے جیسے عامر
عثمانی کی۔ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عامر عثمانی سے جماعت کو تقویت ہی پہنچی
ہیے،نقصان نہی۔ اسی طرح جماعت کو تم سے نقصان نہیں۔ میرے لئے ان کا یہ جملہ ایک
بڑے ایوارڈ سے کم نہی تھا۔
برادران وطن میں دعوتی کاموں کے سلسلے میں اور پھر عید
ملن تقریبات وغیرہ میں اور دوسرے پروگرام کے لیے کنڑی زبان کی بہت زیادہ جماعت میں
کمی محسوس کی گئی تو اس کے لئے جعفر صادق صاحب نے اپنے آپ کو تیار کیا۔الحمدللہ
انہوں نے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیا کے تیس سے چالیس منٹ کی تقریر باآسانی کنڑی
زبان میں کرلیتے تھے۔ غرض جماعت کو جس کی ضرورت پڑی اس چیز کو انہوں نے فراہم کیا۔
جماعت کے کام کو آگے بڑھانے کو میڈیا سے کافی گہرے
روابط پیدا کئے۔جرنلسٹوں سے کافی تعلقات صرف اس غرض کے لئے تھے کے اسلام کا تعارف
اچھی طرح ان میڈیا اور جرنلسٹوں تک پہنچ جائے۔اس غرض کے لئے بھی انہوں نے اپنی
کوششوں کو جاری رکھا اور بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے۔مرحوم جعفر صادق صاحب
کے تعلقات کا دائرہ کافی وسیع تھا۔جوہو نارائن سوامی،بانو مشتاق اور دوسرے بہت سے
نام جن سے مرحوم صادق صاحب کے تعلقات محض دین کی
سربلندی کے لئے استعمال کیا،پے
درپے ملاقاتوں نے ان کے قلم کے رخ کوموڑنے میں کامیاب ہوئے۔