Umra o Hajj-1

عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں لوگوں کا شوق آئے دن بڑھ رہا ہے۔ لوگ جوق درجوق عمرے کی ادائیگی کے لئے نکل رہے ہیں۔ ٹراول ایجنٹ بھی آجکل زیادہ ہورہے ہیں۔ جہاں پہلے ریاست بھر میں دس پانچ ٹراول ایجنٹ ہوا کرتے تھے، اب ہر تعلق اور ضلع



میں دو چار ٹراول ایجنٹ موجود ہیں۔ عمرے کا سفر ایک بڑا تجارتی میدان بن گیا ہے۔

اِن دس پانچ سالوں میں اسلام کے متعلق لوگوں کی معلومات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ نے اسلام کے بارے میں جاننے کے وسائل کو لوگوں کی دسترس سے کافی قریب کردیا ہے۔ اسلام اور اسلام کے پھیلانے والوں کی محبت عوام کے دلوں میں رچ بس گئی ہے۔
اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ لوگ عمرہ کی ادائیگی کے لئے جوق درجوق کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ حج کے مقابلے میں عمرہ ایک سستا اور آسان راستہ ثابت ہوا ہے۔ لوگ گھومنے پھرنے کے لئے دوسری جگہوں پر جہاں پچیس پچاس ہزار کا خرچ آتا ہو، وہاں بھی لوگ دوسرے سفروں کے مقابلے میں عمرے کو اہمیت دے رہے ہیں۔عمرہ ایک ایسا عمل ہے جس سے ہماری وہ تمام خواہشیں مکمل ہوتی ہیں جو آجکل دنیا میں ایک موٹی رقم خرچ کرکے حاصل ہوتی ہیں۔ عمرے کے ذریعے ہونے والے فوائد کچھ ایسے ہیں کہ مارکٹنگ اچھی ہوجاتی ہے، تمام وہ سامان کی لیسٹ تیار  ہوتی ہے۔ جو آئیندہ سال بھر میں خریدنے ہوتے ہیں۔ فلائٹ میں بیٹھنے کی حسرت پوری ہوتی ہے۔ جن مقامات پر حاجی جاتے ہیں ان مقامات پر حاضری ہوجاتی ہے۔ عمرے کو چھوٹے حج سے تعبیر کیا جاتا ہے، عمرہ حج کے مقابلے میں زیادہ سستا ہوتا ہے۔ حج میں پابندیاں لگی ہوتی ہیں، کہ یہاں اس تاریخ کو یوں کرو اور اس تاریخ کو ان اوقات میں یہ کرو۔ مگر عمرے میں ایسی کوئی پابندی نہی ہوتی۔ حج کے لئے خصوصی ایّام ہیں۔ مگر عمرے کا دروازہ سال بھر 

کے لئے کھلا رہتا ہے۔ اس لئے بھی لوگوں کا عمرہ کرنے کی جانب رجحان زیادہ بڑھا ہے۔
ہمارے عمل پر شیطانِ رجیم خاموش نہی ہے وہ بھی لوگوں کو اکسا اکسا کر عمرے کی ادائیگی کے لئے زور دے رہا ہے۔ لوگوں میں اس جگہ کی محبت کا جزبہ جگارہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ لوگ جو حج کی استطاعت رکھتے ہیں زیادہ سے زیادہ عمرہ کریں اور حج سے غافل رہیں۔ شیطان کا کام ہی یہ ہے کہ سچ کے مقابلے میں جھوٹ کی حمایت کراتا ہے۔  اور لوگ حج کے نہ جانے پر دلائل سے اپنے نفس کو اور لوگوں کی زبانوں کو خاموش کرارہے ہیں۔
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جو لوگ اپنے اندر زیارت کی شدید خواہش رکھتے ہیں، اور پیسے کی تنگی کی وجہ سے حج نہی کرسکتے، کیا وہ لوگ عمرے کی ادائیگی سے محروم کردئے جائیں؟

میرا جواب ان کے لئے نہی ہے جو اپنی معاش کی تنگی ہونے کے باوجود کچھ نہ کچھ جوڑ کر عمرے کے ذریعے حرمین کی زیارت کا خواب پورا کرتے ہیں۔
بلکہ میرا جواب ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنا ذاتی گھر تعمیر کرنے سے پہلے بیت اللہ (عمرے)کا دیدار کرچکے ہیں۔
اور اس کے بعد گھر بنانے کے لئے حج کے خرچ سے زیادہ رقم دے کر زمین خریدے ہیں، اور حج کے خرچ سے زیادہ رقم خرچ کرکے گھر کی تعمیر کیے ہیں، اور حج کے خرچ سے زیادہ رقم خرچ کرکے اپنی دکان کی جدید کاری میں خرچ کیے ہیں۔ اور حج کے خرچ سے زیادہ کی رقم لگا کر گاڑیاں خریدے ہیں، جو کسی پارٹی یا محفل میں جانے کے لئے شوقیہ ہی استعمال میں آتی ہیں۔
  اولاد کے سنِ بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ان کے نام جائداد بنانے کی فکر دامن گیر ہے، اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے، سال میں کم ازکم ایک پراپرٹی جس کی قیمت سفر حج سے زیادہ ہے وہ خریدی جارہی ہے۔
کیا یے بھی اس امت کے امیر کبیر مالداروں لوگوں کے مظبوط دلائل ہیں؟
اُن مالداروں کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ اللہ نے مال دیا، وقت دیا، دین کی سمجھ بوجھ عطاء کی، اب ذرا شیطان کے بہکاوے پر شیطان کو کنکریاں مارنے کے بجائے، شیطان کی کنکریوں کا شکار بن رہے ہیں۔
آزمائشیں سب پر ڈالی نہی جاتی، جن لوگوں پر اللہ کی طرف سے آزمائش ڈالی جاتی ہے، وہ اگر اس آزمائش سے گزر جاتے ہیں تو وہ دوہرے اجر سے نوازے جاتے ہیں۔

ہمارے مالداروں کو اللہ کی ڈالی ہوئی آزمائش سے نکلنے کا راستہ نہی مل رہا ہے۔ گھیرے میں آچکے ہیں۔ اسی لئے وہ حج سے محروم ہیں، وہ چاہتے ہوئے بھی حج نہی کرسکتے، وہ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ  اور بی بی حاجرہ کی قربانیوں سے کچھ اخذ کرنا نہی چاہتے۔
دنیا میں کئی ایسے لوگ آپ کو مل جائیں گے جن کے پاس پیسہ تھا، صحت تھی، وقت تھا، جوانی تھی، اتنے امیر تھے کہ پورے خاندان کے حج کا خرچ اٹھاسکتے تھے، ان اوقات سے فائدہ اٹھا کر حج کرنے کے بجائے عمرے پر عمرے کرتے رہے، اب حال یہ ہے کہ ان کی مالی حالت ایسی ہے کہ وہ ایک عمرے کا خرچ کی اجازت نہی دیتی۔
چند گھروں میں بچّے اپنے والدین کو عمرہ کراتے ہیں، ان بچوّں کو چاہیے کہ ماں باپ پر جو چیز فرض نہی اس کی فکر کے بجائے اپنے اوپر اگر حج فرض ہوگیا ہے تو پہلے اس فرض سے فارغ ہوجائے، اور حج کے فرض ہونے یا نہ ہونے کا علم جاننے کسی مولوی یا مفتی کی ضرورت نہی،وہ خود اپنے مال کے بارے میں علم رکھتا ہے۔
جو اولاد عمرے کی ادائیگی کے لئے ماں باپ کو عمرہ کراتی ہے کیا اس کے علم میں حج کی فرضیت اور اس کی اہمیت کے علم سے لاپرواہ ہے؟
 لوگ چاہتے ہیں کہ عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر حج کریں گے۔ ہم میں سے کون ہے جو ہاتھ اٹھا کر بولے کہ وہ عمر کے آخری حصے میں پہنچ کررہے گا۔ مرتے دم تک اس کے دولت میں کمی نہی آئیگی، آخری سانس تک وہ تندرست رہے گا؟

عبدالعلی بن عبدالقدیر اصلاحی ہاسن

Post a Comment

2 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
  1. Dil ki baat kha di Ali, practical baat kahi

    ReplyDelete
  2. Aliman Nasir regards to👆 all Wasalam Allah Hafiz, keep it up

    ReplyDelete