تحریکی لیڈروں کو تحریکی
فکر رکھنے والوں سے ملاقاتوں کے بہانے ڈھونڈنا چاہیے،اور جو موقع عنایت ہو اسے
کھونا نہی چاہیے۔
ایسا ہی ایک موقع گنواتے ہوئے میں نے دیکھا کہ تین
افراد وہ بھی اسٹیٹ لیول کے،اپنے ایک کارکن کے جنازے میں جانے کا اتفاق ہوا،حلقہ
آفس سے دوسو کلومیٹر دور سے آئے۔ نماز عصر اور جنازے کی نماز میں شریک رہے۔ پھر
واپس اپنے مستقر پر روانہ۔ وہ جس کارکن کے جنازے میں شرکت کے لئے دور کا سفر
کرکےآئے تھے، ان میں سے ہمارے ایک ذمہ دار کے اپنے تائثرات پڑھنے سےآنکھیں بھیگنے
کے قریب تھیں۔میں نے خود اس بات کا ان سے ذکر کیا کے آپ کا تعزیت نامہ افراد
جماعت کے لیے ڈھارس کا سبب بنا ہے۔ انہوں نے اپنے مسیج سے اپنے تائثرات کا
اظہار کردیا ،مگر اس طرح سے آنا اور فورا چلے جانا۔جیسے کچھ لوگ نماز پڑھ کر سلام
پھیرتے ہی فورا اٹھ جاتے ہیں۔ تحریک کے لئے مناسب ہی نہی بلکے فضول کا ایک کام ہے
، اور وقت کی بربادی ۔یہی وقت کہیں اور لگاتے تو وقت اور پیسہ دونوں کا فائدہ
ہوتا۔جنازے میں شرکت کے ساتھ ساتھ ہماری تحریک سے وابستہ افراد سے ملاقات، آہستہ
آہستہ قدم رکھنے والوں سے ، اسی طرح چن چن کر لوگوں سے ملاقات کرتے ، ایک ایک فرد
تین تین افراد سے بھی ملاقات کرلیتا تو یہ تحریک کے لئے بہت بڑے فائدے کا کام
ہوتا۔گاڑی کے استعمال کا مقصد پورا ہوجاتا۔لوگوں کے دلوں میں گھر بنانے کا اچھا
موقع حاصل ہو جاتا۔اپنے لئے بھی اور تحریک کے لئے بھی بڑے فائدے کا سبب بنتا ،
آئندہ کے لئے لوگوں کو سبق ملتا کہ کام بڑھانے کے لیے کن کن نسخوں کو آزمانا پڑتا
ہے۔ تحریکی افراد کی کمائی چاہے وہ کتنی ہی بڑی ہو ، پاک ہوتی ہے۔شاید کے ایسی
کمائی کسی اور جماعت کے سبھی افراد میں ہو۔ اس کمائی کے پیسوں کے کم خرچ سے زیادہ
فائدہ حاصل کیا جانا چاہیے ۔ کام کچھ بنتا دیکھیں تو رکنا پڑے تو رک جانا چاہیے
،مزید اخراجات آتے ہیں تو اس کام میں اس کی بھی پرواہ نہی کرنا چاہیے۔کھانے کے لئے
اچھی ہوٹل سہی،اچھا کمرہ سہی۔تحریک کا پیسہ افراد کو تیار کرنے میں لگتا ہےتو یہ
بڑی سعادت کی بات ہے،پیسے کے استعمال کو عمارت کی تعمیر سے کہیں زیادہ افراد کی
تعمیر پر لگاناچاہیے۔عمارت کی تعمیر کو موخر کرکے افراد کی تعمیر کو مقدم رکھنا چاہیے۔
دوسرے دن امیر حلقہ کو رپورٹ سنانے میں اور امیر حلقہ
کو رپورٹ سننے میں مزہ آنا چاہیے تھا۔
دور سے آئے ہوے ذمہ داروں کی بات کچھ نرالی ہوتی ہے،بڑی وزن رکھتی ہے۔اس ملاقات کی کچھ اور ہی اہمیت
ہوتی ہے۔کچھ نئے ارکان کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ قدیم کارکنوں سے بازپرس بھی
ہوتی ہے۔ جس سے اور جہاں بھی سوئی ہوئی جماعت میں اٹھ کھڑے ہوکرکام کرنے کے
امکانات نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ حلقے کی چند ملاقاتیں وہ بھی کسی جنازے میں شرکت
کی غرض سے آکر جماعت کے اندر ایک نئی روح کے پھونکنے سے کچھ کم نہی ہوتا۔ ہم
جیسے بہتوں کو اللہ تعالئ نے نئی زندگی عطا کی ہے۔اس دوبارہ دی جانے والی بونس
زندگی کو غنیمت جانتے ہوے دیوانہ وار انتھک مہنت سے کام کرنے کی ضرورت آں پڑی ہے۔
کہیں ہم جماعت کے کام کو آٹو پائلٹ پر ڈال کر کسی کھیل میں تو مصروف نہی ہوگئے ہیں
؟
کسی کام کے سلسلے سے سفر کرنا،کام کے ختم ہوتے ہی بھاگ
آنا یہ سب کمیاں قائد کی نہی ہوتی۔اور نہ ہی دنیا اسے قائدانہ صلاحیت تسلیم کرتی
ہے۔ قائد وہ ہوتا ہے،جو جماعت کی نماز سے پہلے آتاہے،اور پوری نماز ہونے کے بعد بھی
بہت دیر تک ٹہرا رہتا ہے۔
مجھے اس پر بھی بہت تعجب ہوا جو شخص امیر مقامی کی
حیثیت سے اپنی معیاد مکمل کی، اپنی پوری معیاد میں وہ مرحوم شخص امیر مقامی کے
ساتھ کھڑا رہا، ان کے کام میں ہاتھ بٹاتا رہا۔ مرحوم شخص کا امیر سے قریبی تعلق
رہا۔وہ شخص بھی اپنے رفیقوں کے ساتھ، صرف بس کی ٹکٹ بچانے کے لئے نکل کھڑا ہوگیا۔
مجھے ایک افطار پارٹی میں اکبر علی اڈپی کے ہمراہ ٹمکور
جانے کا اتفاق ہوا۔اکبرعلی صاحب اپنا پروگرام دینے کے بعد سب سے زیادہ مصروف شخص
ہوگئے۔ہمارے بعد کھانے سے فارغ ہوے۔کھانے میں بھی جو کچھ ہمیں حاصل تھا وہ انہیں میسر نہی آیا۔عشاء نماز اور پوری تراویح
پڑھی ہمارے خواہش تھی عشاء پڑھکر نکل جانے کی۔ مگر اکبر علی صاحب مسکراتے
ہوے،تراویح پڑھ کر فارغ ہونے کے بعد دوبارہ پروگرام ہال جاکر وہاں موجود تمام
افراد سے ملاقات کرکے،ہال کی لائٹ بند ہونے کے کافی دیر بعد اپنی گاڑی کی طرف دو
قدم آتے، پھر ٹہر کر رفقاء سے گفتگو کرنے لگ جاتے۔پھر دوقدم آگے بڑھتے ، پھر رک کر
گفتگو میں لگ جاتے ۔ رفقاء نے بھی گاڑی تک آکر انہیں وداع کیا۔گاڑی کا ڈور کھول کر
اپنی سیٹ میں بیٹھنے تک اکبر علی صاحب کو دس منٹ کے قریب کا وقت لگا ۔ یہ سفر بڑا
یادگار رہا،بہت سے موضوعات پر گفتگوئیں چھڑیں۔
سیرت رسول اللہ ﷺِ سے ہم اس بات کو اخذ کئے بغیر کسی
تحریک کو کامیابی سے نہیں چلا سکتے کہ آپ ﷺ کی زندگی مسلسل ،کبھی چین سے نہ بیٹھنے
والی، کبھی نہ رکنے والی،ہمیشہ مصروف رہنے والی جدوجہد، مشین سے زیادہ متحرک رہنے
کا درس ہمیں لینا ہے، چاہے وہ سابق امیر حلقہ ہوں یا معاون امیر حلقہ ۔
جو غلطیاں جہاں سے بھی
نظر آئیں انھیں اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے ان کی اصلاح کرلینا چاہیے۔شورئ ہی
کے فیصلے کا انتظار نہی کرنا چاہیے۔شورئ بھی اپنے کام کو صحیح طریقے پر انجام دے
شورئ کا کام یے نہی ہے کہ کس کو قریب کیا جائے۔کسے دور پھینک دیا جائے۔ کس کی زبان
تیز ہے جو ہم پر حملے کرتی ہے،کون ہماری ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ اگر کسی میں غلطیاں
یا کوتاہیاں نظر آئیں تو اس سے بل مشافہ بات کرکے اس کی تصدیق کرلی جائے،اور اس کے
کردار کو من و عن شورئ کے سامنے بیان کردینا چاہیے۔ملاقات بھی غلطی ڈھونڈنے کی غرض
سے نہی ہونی چاہیے۔
فقط
عبدالعلی ہاسن
