1)
ان کے پاس ایک
اعلی درجے کی باقاعدہ زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی
صلاحیت تھی
2)
وہاں کوئی باقاعدہ
حکومت نہ تھی۔ کوئی ضابطہ نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار تھا
3)
پاک اور ناپاک،
جائز اور ناجائز، شائستہ اور ناشائستہ، کی تمیز سے تقریبا نا آشنا تھے
4) وہ
اتنا ضرور جانتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کے
باپ ہیں۔ مگر یہ نہ جانتے تھے کہ ان دونوں باپ بیٹوں کا دین کیا تھا
5)
ایسے زمانے میں،
ایسے ملک میں، ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔ بچپن ہی میں ماں باپ اور دادا کا سایہ اس کے
سر سے اٹھ جاتا ہے
6) وہ
کسی سے بد کلامی نہیں کرتا۔ کسی نے اس کی زبان سے کبھی گالی یا کوئی فحش بات نہیں
سنی۔ وہ لوگوں سے ہر قسم کے معاملات کرتا ہے
7)
اندھوں کو دکھانے
اور بہروں کو سنانے کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی ہے۔
8) "امت" کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ایک
رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی امت ہیں
9) اس
لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی
امت ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قران اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا۔
10)
جس طرح ایک سورج
سارے جہاں کے لیے کافی ہو رہا ہے اسی طرح یہ اکیلا آفتابِ ہدایت ہس سب جہاں والوں
کے لئے کافی ہے۔
سر زمینِ عرب کے احوال 94
اس
تاریک دور میں زمین کا ایک گوشہ ایسا تھا جہاں تاریکی کا تصرّف اور بھی زیادہ بڑھا
ہوا تھا۔ جو ممالک اس زمانے میں معیار تمدّن کے لحاظ سے متمدّن تھے ان کے درمیان
عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا۔ اس کے ارد گرد ایران روم اور مصر کے ملکوں
میں علوم و فنون اور تہذیب و شائستگی کی کچھ روشنی پائی جاتی تھی۔ مگر ریت کے بڑے
بڑے سمندروں نے عرب کو ان سے جدا کر رکھا تھا۔ عرب سوداگر اونٹوں پر مہینوں کی
مسافت طے کر کے ان ملکوں میں تجارت کے لیے جاتے تھے، اور صرف اموال کا تبادلہ کرکے
واپس آجاتے تھے۔ علم و تہذیب کی کوئی روشنی ان کے ساتھ نہ آتی تھی۔ ان کے ملک میں
نہ کوئی مدرسہ تھا، نہ کتب خانہ، نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچہ تھا، نہ علوم و فنون
میں کوئی دلچسپی تھی، تمام ملک میں گنتی کے چند آدمی تھے جنہیں لکھنا پڑھنا آتا
تھا۔ مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ وہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوں۔ ان کے پاس
ایک اعلی درجے کی باقاعدہ زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر
معمولی صلاحیت تھی۔ ان میں بہترین ادبی مذاق بھی موجود تھا۔ مگر ان کے لٹریچر کے
جو کچھ باقیات ہم تک پہنچے ہیں ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی معلومات کس
قدر محدود تھیں۔ تہذیب و تمدّن میں ان کا درجہ کس قدر پست تھا۔ ان پر اوہام
کا کس قدر غلبہ تھا۔ ان کے خیالات اور ان کے عادات میں کتنی جہالت اور وحشت تھی۔
ان کے اخلاقی تصورات کتنے بھدے تھے۔
وہاں
کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی۔ کوئی ضابطہ نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار تھا
اور صرف "جنگل کے قانون" کی پیروی کی جاتی تھی جس کا جس پر بس چلتا اسے
مار ڈالتا اور اس کے مال پر قابض ہو جاتا۔ یہ بات ایک عرب بدوی کے فہم سے بالا تر
تھی کہ جو شخص اس کے قبیلے کا نہیں ہے اسے وہ کیوں مار ڈالے اور اس کے مال پر کیوں
نہ متصرف ہو جائے۔
اخلاق
و تہذیب و شائستگی کے جو کچھ بھی تصوّرات ان لوگوں میں تھے وہ نہایت ادنیٰ اور سخت
نہ تراشدا تھے۔ پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز، شائستہ اور ناشائستہ، کی تمیز سے
تقریبا نا آشنا تھے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف برہنہ ہو جاتے تھے۔ ان کی
عورتیں تک ننگی ہو کر کعبے کا طواف کرتی تھیں۔ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھوں زندہ
دفن کر دیتے تھے۔ محض اس جاہلانہ خیال کے بنا پر کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے۔ وہ
اپنے باپوں کے مرنے کے بعد اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کرلیتے تھے۔ انہیں کھانے اور
لباس اور طہارت کے آداب تک معلوم نہ تھے۔
مذہب
کے باب میں وہ ان تمام جہالتوں اور ذلالتوں کے حصے دار تھے جن میں اس زمانے کی
دنیا مبتلا تھی۔ بت پرستی، ارواح پرستی، کواکب پرستی، غرض ایک خدا کی پرستی کے سوا
اس وقت دنیا میں جتنی پرستیاں پائی جاتی تھیں وہ سب ان میں رائج تھیں۔ انبیاء قدیم
اور ان کی تعلیمات کے متعلق کوئی صحیح علم ان کے پاس نہ تھا۔ وہ اتنا ضرور جانتے
تھے کہ ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کے باپ ہیں۔ مگر یہ
نہ جانتے تھے کہ ان دونوں باپ بیٹوں کا دین کیا تھا اور وہ کس کی عبادت کرتے تھے۔
عاد اور ثمود کے قصے بھی ان میں مشہور تھے۔ مگر ان کی جو روایات عرب کے مورخین نے
نقل کی ہیں ان کو پڑھ جائیے، کہیں آپ کو صالح اور ہود کی تعلیمات کا نشان نہ ملے
گا۔ ان کو یہودیوں اور عیسائیوں کے واسطے سے انبیاء بنی اسرائیل کی کہانیاں بھی
پہنچی تھیں۔ مگر وہ جیسی کچھ تھیں ان کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک نظر اسرائیلی
روایات پر ڈال لینا کافی ہے جو مفسرینِ اسلام نے نقل کی ہیں۔ آپ کو معلوم ہوجائے
گا کہ اہل عرب اور خود بنی اسرائیل جن انبیاء سے واقف تھے وہ کیسے انسان تھے اور
نبوت کے متعلق ان لوگوں کا تصور کس قدر گھٹیا درجے کا تھا۔
ایک شخصیت سامنے آتی ہے 95
ایسے
زمانے میں، ایسے ملک میں، ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔ بچپن ہی میں ماں باپ اور دادا کا
سایہ اس کے سر سے اٹھ جاتا ہے۔ اس لیے اس گئی گزری حالت میں ایک عرب بچے کو، جو
تھوڑی بہت تربیت مل سکتی تھی وہ بھی اس کو نہیں ملتی۔ ہوش سنبھالتا ہے تو بدوی
لڑکوں کے ساتھ بکریاں چرانے لگتا ہے۔ جوان ہوتا ہے تو سودا گری میں لگ جاتا ہے۔
اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا، سب کچھ انہی عربوں کے ساتھ ہے جن کا حال اوپر آپ نے دیکھ
لیا ہے۔ تعلیم کا نام تک نہیں، حتی کہ پڑھنا لکھنا تک نہیں آتا، کسی عالم کی صحبت
بھی میسر نہ ہوئی۔ عالِم کا وجود اس وقت تمام عرب میں کہیں نہ تھا۔ چند مرتبہ اسے
عرب سے باہر قدم نکالنے کا اتفاق ضرور ہوا مگر یہ سفر صرف شام کے علاقے تک تھے۔
اور ویسے ہی تجارتی سفر تھے جیسا اس زمانے میں عرب کے تجارتی قافلے کیا کرتے تھے۔
بالفرض اگر ان اسفار کے دوران میں اس نے کچھ آثار علم و تہذیب کا مشاہدہ کیا، اور
کچھ اہل علم سے ملاقات کا اتفاق بھی ہوا تو ظاہر ہے کہ ایسے منتشر مشاہدات اور
ایسی ہنگامی ملاقاتوں سے کسی انسان کی سیرت نہیں بن جاتی۔ ان کا اثر کسی شخص پر
اتنا زبردست نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے ماحول سے بالکل آزاد، بالکل مختلف، اور اتنے
بلند ہوجاتے کہ اس میں اور اس کے ماحول میں کچھ نسبت ہی نہ رہے۔ ان سے ایسا علم
حاصل ہونا ممکن نہیں ہے۔ جو ایک ان پڑھ بدوی کو ایک ملک کا نہیں، تمام دنیا کا،
اور ایک زمانے کا نہیں، تمام زمانوں کا لیڈر بنا دے۔ اگر کسی درجے میں اس باہر کے
لوگوں سے علمی استفادہ کیا بھی تو جو معلومات اس وقت دنیا میں کسی کو حاصل ہی نہ
تھیں، مذہب، اخلاق، تہذیب و تمدن کے جو تصورات اور اصول، اس وقت دنیا میں
کہیں موجود ہی نہ تھے، انسانی سیرت کے جو نمونے اس وقت کہیں پائے ہی نہ جاتے تھے،
ان کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کا کردار 95
صرف
عرب ہی کا نہیں دنیا کا ماحول پیش نظر رکھیے اور دیکھیے
یہ
شخص جن لوگوں میں پیدا ہوا، جن میں بچپن گزرا، جن کے ساتھ چل کر جوان ہوا، جن سے
اس کا میل جول رہا، جن سے اس کے معلومات رہے، ابتدا ہی سے عادات میں، اخلاق میں،
ان سب سے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اس کی صداقت پر اس کی ساری
قوم گواہی دیتی ہے۔ اس کے کسی بدترین دشمن نے کبھی اس پر یہ الزام نہیں لگایا کہ
اس نے فلاں موقع پر جھوٹ بولا تھا۔ وہ کسی سے بد کلامی نہیں کرتا۔ کسی نے اس کی
زبان سے کبھی گالی یا کوئی فحش بات نہیں سنی۔ وہ لوگوں سے ہر قسم کے معاملات کرتا
ہے۔ مگر کبھی کسی سے تلخ کلامی اور تو تو میں میں کی نوبت نہیں آتی۔ اس کی زبان
میں سختی کے بجائے شیرینی ہے اور وہ بھی ایسی کہ جو اس سے ملتا ہے گرویدہ ہو جاتا
ہے۔ وہ کسی سے بد معاملگی نہیں کرتا۔ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ برسوں سودا گری کا
پیشہ کرنے کے باوجود کسی کا ایک پیسہ بھی ناجائز طریقے سے نہیں لیتا۔ جن لوگوں سے
اس کے معاملات پیش آئے ہیں وہ سب اس کی ایمانداری پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں۔ ساری
قوم اس کو امین کہتی ہے۔ دشمن تک اپنے قیمتی مال اس کے پاس رکھواتے ہیں اور وہ ان
کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ بے حیا لوگوں کے درمیان ایسا حیا دار ہے کہ ہوش سنبھالنے کے
بعد کسی نے اس کو برہنہ نہیں دیکھا۔ بد اخلاقوں کے درمیان وہ ایسا پاکیزہ اخلاق ہے
کہ کسی بدکاری میں وہ مبتلا نہیں ہوتا۔ شراب اور جوئے کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔
ناشائستہ لوگوں کے درمیان وہ ایسا شائستہ ہے کہ ہر بدتمیزی اور گندگی سے نفرت کرتا
ہے اور اس کے ہر کام میں پاکیزگی اور ستھرائی پائی جاتی ہے۔ سنگ دلوں کے درمیان وہ
ایسا نرم دل ہے کہ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔ یتیموں اور بیواؤں کی مدد
کرتا ہے۔ مسافروں کی میزبانی کرتا ہے۔ کسی کو اس سے دکھ نہیں پہنچتا اور وہ دوسروں
کے خاطر دکھ اٹھاتا ہے۔ وحشیوں کے درمیان وہ ایسا صلح پسند ہے کہ اپنی قوم میں
فساد اور خونریزی کی گرم بازاری دیکھ کر اس کو اذیت ہوتی ہے۔ اپنی قبیلے کی
لڑائیوں سے دامن بچاتا ہے اور مصالحت کی کوششوں میں پیش پیش رہتا ہے۔ بت پرستوں کے
درمیان وہ ایسا سلیم الفطر اور صحیح العقل ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی چیز اسے پوجنے
کے لائق نظر نہیں آتی۔ کسی مخلوق کے آگے اس کا سر نہیں جھکتا۔ بتوں کے چڑھاوے کا
کھانا بھی وہ قبول نہیں کرتا۔ اس کا دل خود بخود شرک اور مخلوق پرستی سے نفرت کرتا
ہے۔
ماحول
میں یہ شخص ایسا ممتاز نظر اتا ہے جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک شمع روشن ہے، یا
پتھروں کے ڈھیر میں ایک ہیرا چمک رہا ہے۔
تمام نوع انسانی کے لیے ذریعہ ہدایت 150
یعنی
تم صرف اس شہر یا اس ملک یا اس زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے
انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو مگر یہ تمہارے ہم عصر
اہلِ وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسے عظیم
ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے
ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے
گئے ہیں۔
ساری انسانیت کے لیے بشیر و نظیر 150
اے
نبی تمہارا کام لوگوں کو خبردار کر دینے سے زائد کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی
ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمراہیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری
تم پر نہیں ہے۔ اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی
ہے۔
اپ تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے 152
"امت" کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ایک
رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی امت ہیں۔ نیز اس
کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رسول ان کے درمیان زندہ موجود ہو، بلکہ رسول کے
بعد بھی جب تک اس کی تعلیم موجود رہے اور ہر شخص کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہو کہ
وہ درحقیقت کس چیز کی تعلیم دیتا ہے، اس وقت تک دنیا کے سب لوگ اس کی امت قرار
پائیں گے اور ان کو وہ حکم ثابت ہوگا جو اگے بیان کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی امت ہیں اور اس
وقت تک رہیں گے جب تک قران اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا۔ اس وجہ سے آیت
میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ ہر قوم میں ایک رسول ہے، بلکہ ارشاد یہ ہوا ہے کہ ہر
امت کے لیے ایک رسول ہے۔
اگر
ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک نزیر اٹھا کھڑا کرتے (الفرقان 51)
یعنی
ایسا کرنا ہماری قدرت سے باہر نہ تھا۔ ہم چاہتے تو جگہ جگہ نبی پیدا کر سکتے تھے۔
مگر ہم نے ایسا نہیں کیا اور دنیا بھر کے لیے ایک نبی مبعوث کر دیا۔ جس طرح ایک
سورج سارے جہاں کے لیے کافی ہو رہا ہے اسی طرح یہ اکیلا آفتابِ ہدایت ہس سب جہاں
والوں کے لئے کافی ہے۔

