Seerat Server E Alam-07

1)    عرب کا اُمّی جو طبیب نہ تھا جس نے کبھی فنِ طب کی تحقیق نہ کی تھی۔

2)    حدادی اور زرہ سازی کا تبلیغ رسالت سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟

3)    پرندوں کی بولیاں جاننے سے تبلیغ رسالت کو کیا واسطہ؟

4)    نجاری اور کشتی سازی تبلیغ رسالت کا کون سا شعبہ ہے؟

5)    حضور ﷺ کے لباس اور آپؐ کے کھانے کے معاملے کو لے لیجئے۔

6)    کھانے اور پہننے میں آپ اپنے عمل اور قول سے شریعت کے حدود اور اسلامی آداب کی تعلیم دیتے تھے۔

7)    کھانے اور پینے کے معاملے میں حرام اور حلال جائز اور ناجائز کے حدود معین کرے۔ اور لوگوں کو ان آداب کی تعلیم دے جو اہل ایمان کے اخلاق و تہذیب سے مناسبت رکھتے ہیں۔

8)    جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کر کے وہ کھاتا ہے، پیتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے، گوشت پوست کا بنا ہوا ہے فیصلہ کر دیا کہ یہ پیغمبر نہیں ہے کیونکہ بشر ہے۔

9)    غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لیے ہمیشہ ایک معمہ ہی بنا رہا-

10)   ان کا نظریہ یہ تھا کہ خدا کا پیغام لے کر آتا تو کوئی فرشتہ آتا نہ کہ ایک گوشت پوست کا آدمی جو زندہ رہنے کے لیے غذا کا محتاج ہو۔

11)   یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ کائنات کا مالک ایک شخص کو نبوت کا جلیل القدر منصب عطا کر کے بس یوں ہی اکیلا چھوڑ دے اور وہ لوگوں سے گالیاں اور پتھر کھاتا پھرے۔

12)   یہ کیا ماجرہ ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے گیا گزرا ہو۔ نہ خرچ کے لیے مال میسر، نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب، اور دعوی یہ ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔

13)   پیغمبر کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ آ کر پیغام سنا دے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ اس پیغام کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح کرے۔

14)    اسے ان بے شمار مختلف انسانوں کے ذہن کی گتھیاں سلجھانی پڑتی ہیں، جو اس کا پیغام سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
فرشتہ تو زیادہ سے زیادہ یہی کرتا کہ آتا اور پیغام پہنچا کر چلا جاتا۔

15)    رسول بنانے کے لیے ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی۔ بکریاں چرا کر جوانی گزار دی۔

16)     ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آپ کے دل و دماغ کا دین ہو، آپ کی انکھ اور کان کا دین ہو، آپ کے ہاتھ اور پاؤں کا دین ہو، آپ کے پیٹ اور دھڑکا دین ہو، آپ کے قلم اور زبان کا دین ہو۔

17)   انسان ایک قسم کا جانور ہے جو ساری چیزوں کی طرح شاید اتفاقاً یہاں پیدا ہو گیا ہے۔ یہ اسی زمین پر پایا جاتا ہے کچھ خواہشیں رکھتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی طبیعت جوانی کے مطالبات پورے کرے۔

18)    پر قلیل مستثنیات کو چھوڑ کر بادشاہوں نے امیروں نے، درباریوں اور ارباب حکومت نے، خوشحال لوگوں اور خوشحالی کے پیچھے جان دینے والوں نے، عموما اسی نظریے کو ترجیح دی ہے۔

اصل مقصد رسالت پر حضورؐ کی توجہ 240

مگر یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ دنیوی معاملات میں جو کچھ حضورؐ نے فرمایا وہ خدا کی وحی سے نہ تھا۔ اگرچہ آپؐ کے ایسے ارشادات آپؐ کے احکام نہی ہیں، نہ آپ نے حکم کے انداز میں فرمایا، اور نہ کسی نے ان کو حکم سمجھا، مگر پھر بھی جو بات آپؐ کے زبانِ مبارک سے نکلی وہ سراسر حق تھی اور غلطی کا اس میں شائیبہ تک نہ تھا۔ مثال کے طور پر طبِ نبوی کے باب میں جو کچھ آپؐ سے ثابت ہے وہ ایسی ایسی حکیمانا باتوں سے لبریز ہے جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عرب کا اُمّی جو طبیب نہ تھا، جس نے کبھی فنِ طب کی تحقیق نہ کی تھی، وہ کس طرح اس فن کی حقیقتوں تک پہنچا جو صدیوں کے تجربات کے بعد اب منکشف ہورہی ہیں۔ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں ہم کو حضورؐ کے حکیمانا ارشادات میں ملتی ہیں۔ اگرچہ یہ باتیں تبلیغِ رسالت سے تعلق نہیں رکھتیں۔ مگر اللہ اپنے رسولوں کی جبلّت میں جو غیر معمولی قوتیں ودیعیت فرماتا ہے وہ صرف تبلیغِ رسالت ہی کے کام نہی آتیں، بلکہ ہر معاملے میں اپنی شانِ امتیاز دکھا کر رہتی ہیں۔ حدادی اور زرہ سازی کا تبلیغِ رسالت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ مگر حضرت داودؑ اس میں غیر معمولی کمال دکھاتے ہیں، اور حقِ تعالئ خود فرماتا ہے کہ یہ فن ہم نے ان کو سکھایا تھا۔(انبیاء ٨٠ ) پرندوں کی بولیاں جاننے سے تبلیغِ رسالت کو کیا واسطہ؟ مگر حضرت سلیمانؑ اس میں غیر معمولی کمال دکھاتے ہیں، (النمل ١٦) نجاری اور کشتی سازی تبلیغِ رسالت کا کونسا شعبہ ہے؟ مگر اللہ تعالئ حضرت نوحؑ سے یہ نہی کہتا کہ ایک مظبوط سی کشتی بنالو (ھود ٣٧)

دورِ معبد میں حیثیتِ نبویہ کے تعین کی صورت 248

مثلاً حضورﷺ کے لباس اور آپؐ کے کھانے کے معاملے کو لے لیجئے۔ اس کا ایک پہلو تو یے تھا کہ آپ خاص وضع اور قطع کا لباس پہنتے تھے جو عرب میں اس وقت پہنا جاتا تھا اور جس کے انتخاب میں آپ کے شخصی ذوق کا دخل بھی تھا۔ اسی طرح آپ وہی کھانا کھاتے تھے جیسے آپ کے عہد میں اہلِ عرب کے گھروں میں پکتے تھے اور ان کے انتخاب میں آپ کے اپنے ذوق کا بھی دخل ہوتا تھا۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس کھانے اور پہننے میں آپ اپنے عمل۔اور قول۔سے شریعیت کے حدود اور اسلامی آداب کی۔تعلیم دیتے تھے۔ اب یہ بات خود حضورﷺ ہی کے سکھایے ہوئے اصولِ شریعیت سے ہم کو معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے پہلی چیز آپ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری چیز حیثیتِ نبویہ سے۔ اس لئے کہ شریعیت نے، جس کی۔تعلیم دینے۔کے لئےآپؐ اللہ کی طرف سے معمور کئے گئے تھے، انسانی زندگی کے اس معاملے کو اپنے دائرے میں نہیں لیا ہے کہ لوگ اپنے لباس کس تراش خراش اور وضع قطع پرسلوائیں، اور اپنے کھانے کس طرح پکائیں، البتہ اس نے یہ چیز اپنے دائرے عمل میں لی ہے کہ کھانے اور پہننے کے معاملے میں حرام اور حلال، جائز اور ناجائز، کے حدود معین کرے اور لوگوں کو ان آداب کی تعلیم دے جو اہل ایمان کے اخلاق و تہزیب سے مناسبت رکھتے ہیں۔

نبوّت و بشریّت 271

ہر زمانے کے جاہل لوگ اس غلط فہمی میں مبتلارہے ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہی ہوسکتا۔ اس لیے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کرکے وہ کھاتا ہے، پیتا ہے، بیوی بچےّ رکھتا ہےگوشت پوست کا بنا ہوا ہے، فیصلہ کردیا کہ یہ پیغمبر نہی ہے کیوں کے بشر ہے۔ اور جب وہ گزر گیا تو ایک مددّت کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہوگئےجو کہنے لگے کہ وہ بشر نہی تھا۔ کیونکے پیغمبر تھا۔ چناچہ کسی نے اسے خدا بنایا، اور کسی نے خدا کا بیٹا، اور کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کرگیا تھا۔ غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لئے ہمیشہ ایک معمّہ ہی بنا رہا۔

مشرکینِ مکہ کا نقطہ نظر 271

اول تو اہلِ مکہّ انسان کا رسول ہونا ہی عجیب سمجھتے تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ خدا کا پیغام  لیکر آتا تو کوئی فرشتہ آتا۔ نہ کہ ایک گوشت پوست کا آدمی جو زندہ رہنے کے لئے غذا کا محتاج ہو۔ تاہم اگر آدمی ہی رسول بنایا گیا تھا تو کم از کم وہ بادشاہوں یا دنیا کے بڑے لوگوں کی طرح ایک بلند پائہ ہستی ہونا چاہیے تھا جسے دیکھنے کے لئے آنکھیں ترستیں اور جس کے حضور باریابی کا شرف بڑی کوشیشوں سے کسی کو نصیب ہوتا۔ نہ یہ کہ ایک ایسا عامی آدمی خدا وندے عالم کا پیغمبر بنا دیا جائے جو لوگوں کو چلتا پھرتا کھاتا پیتا نظر آتا ہو۔ بھلا اس آدمی کو کون خاطر میں لائے گا جسے ہر راہ چلتا روز دیکھتا ہو اور کسی پہلو سے بھی اس کے اندر غیر معمولی پن نہ پاتا ہو۔ بالفاظ دیگر ان کی رائے میں رسول کی ضرورت اگر تھی تو عوم الناس کو ہدایت دینے کے لئےنہی بلکہ عجوبے دکھانے یا ٹھاٹھ باٹھ سے دھونس جمانے کے لئے تھی۔ یا پھر ایک فرشتہ اس کے ساتھ کردیا جاتاجو ہر وقت کوڑا ہاتھ میں لئے رہتا اور لوگوں سے کہتا کہ مانو اس کی بات ورنہ ابھی خدا کے عذاب کا کوڑا برسادیتا ہوں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ کائنات کا مالک ایک شخص کو نبوت کا جلیل القدر منصب عطا کرکے بس یوں ہی اکیلا چھوڑدے اور وہ لوگوں سے گالیاں اور پتھر کھاتا پھرے۔  بدرجہ آخر ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اللہ میاں کم ازکم اتنا تو کرتے کہ اپنے رسول کے لئے معاش کا کوئی اچھا انتظام کردیتے۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے گیا گزرا ہو۔ نہ خرچ کے لئے مال میسّر، نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب، اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔

انسان کی رہنمائی کے لئے انسان ہی نبی ہوسکتا ہے۔ 273

پیغمبر کا کام صرف اتنا ہی نہی ہے کہ آکر پیغام سنادے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ اس پیغام کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح کرے۔ اسے انسانی احوال پر اس پیغام کے اصولوں کا انطباق کرنا ہوتا ہے۔ اسے خود اپنی زندگی میں ان اصولوں کا عملی۔مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے ان بے شمار مختلف انسانوں کے ذہن کی گتھیاں سلجھانی پڑتی ہیں جو اس کا پیغام سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسے ماننے والوں کی تربیت اور تنظیم کرنی ہوتی ہے تاکہ اس پیغام کی تعلیمات کے مطابق ایک معاشرہ وجود میں آے۔ اسے انکار اور مخالفت و مزاحمت کرنے والوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنی ہوتی ہے تاکہ بگاڑ کی طاقتوں کی حمایت کرنے والی طاقتوں کو نیچا دکھایا جائے اور وہ اصلاح عمل میں آسکے جس کے لئے خدا نے اپنا پیغمبر مبعوث فرمایا ہے۔ یہ سارے کام جب کہ انسانوں میں ہی کرنے کے ہیں تو ان کے لئے انسان نہیں تو اور کون بھیجا جاتا؟ فرشتہ تو زیادہ سے زیادہ یہی کرتا کہ آتا اور پیغام پہنچا کر چلا جاتا۔ انسانوں میں انسان کی طرح رہ کر انسان کے سے کام کرنا اور پھر انسانی زندگی میں منشاء الٰہی کے مطابق اصلاح کرکے دکھادینا کسی فرشتے کے بس کا کام نہ تھا۔ اس کے لئے تو ایک انسان ہی موزوں ہوسکتا تھا۔

نبی ہوتا تو کوئی بڑا آدمی ہوتا 285

"کہتے ہیں، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟"

دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تھا کہ اگر واقعی خدا کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میں سے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کے لئے منتخب کرتا۔ رسول بنانے کے لئے ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصہ میں کوئی میراث نہ آئی۔ جس نے بکریاں چرا کر جوانی گزاردی، جو اب گزر اوقات کرتا بھی ہے تو بیوی کے مال سے تجارت کرکے، جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہی ہے، کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ عتبہ بن ربیع جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود، حبیب بن عمرو، کنانہ بن عبد عمرو، اور ابن عبد یالیل جیسے رئیس موجود نہ تھے؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال۔ پہلے تو وہ ییی ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہوسکتا ہے۔ مگر قرآن مجید میں پے درپے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح سے ابطال کردیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول ہوکر آتے رہے ہیں، اور انسانوں کی ہدایت کے لئے بشر ہی رسول ہوسکتا ہےنہ کہ غیر بشر، اور جو رسول بھی دنیا میں آئے ہیں وہ یکایک آسمان سے نہیں اتر آئے تھے، بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوئے تھے، بازاروں میں،چلتے پھرتے تھے، بال بچوں والے تھے اور کھانے پینے سے مبرا نہ تھے۔ تو انہوں نے دوسرا پینترا بدلہ، اچھا بشر ہی رسول سہی مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے۔ مالدار ہو، با اثر ہو، بڑے جتھے والا ہو، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہو۔ محمد بن عبداللہ(ﷺ) اس مرتبے کے لئے کیسے موزوں ہوسکتے ہیں؟

ایک خاص طریقہ فکر اور نقطہ نظر 291

اسلام ایک خاص طرقہ فکر Attitude of Mind ہے۔ اور پوری زندگی کے متعلق ایک خاص نقطہ نظر Outlook on Life ہے۔اور پھر وہ ایک خاص طرز عمل ہے۔ جس کا راستہ اسی طرزِ فکر اور اسی نظریہ زندگی سے متعین ہوتا ہے۔ اس طریقہ فکر اور طرزِ عمل سے جو ہیت حاصل ہوتی ہے وہ مذہبِ اسلام ہے، وہ تہذیب اسلامی ہے، اور وہی تمدنِ اسلامی ہے۔ یہاں مذہب اور تہذیب و تمدن الگ الگ چیزیں نہی ہیں بلکہ سب مل کر ایک مجموعہ بناتے ہیں۔ وہی ایک طریقِ فکر اور نظریہ حیات ہے جو زندگی کے ہر مسئلے کا تصفیہ کرتا ہے۔ انسان پر خدا کے کیا حقوق ہیں، خود اس کے اپنے نفس کے کیا حقوق ہیں، ماں باپ کے بیوی بچوں کے، اور عزیزوں اور قرابت داروں کے، پڑوسیوں اور معاملہ داروں کے، ہم مزہبوں اور غیر مزہبوں والوں کے، دشمنوں اور دوستوں کے، ساری نوعِ انسانی کے، حتیٰ کہ کائنات کی ہر چیز اور ہر قوت کے کیا حقوق ہیں۔ وہ ان حقوق کا تعین بھی کرتا ہے اور ان کے درمیان کامل توازن اور عدل بھی قائم کرتا ہے۔ ایک شخص کا مسلمان ہونا ہی اس امر کی کافی ضمانت ہے کہ وہ ان تمام حقوق کو پورے انصاف کے ساتھ ادا کرے گا، بغیر اس کے کہ ظلم کی راہ سے ایک حق کو دوسرے حق پر قربان کردے۔ پھر یہی طریقہ فکر اور نظریہ حیات انسان کی زندگی کا بلند اخلاقی نصب العین اور ایک پاکیزہ روحانی منتہائے نظر معین کرتا ہے۔ اور زندگی کی تمام۔سعی و جہد کو، خوہ وہ کسی میدان میں ہو ایسے راستوں پر ڈالنا چاہتا ہے جو ہر طرف سے اسی ایک مرکز کی طرف راجع ہوں۔

ایمان کے تقاضے 308

ایمان کے معنی جھک جانے، سپر ڈالدینے، اپنے آپ کو سپرد کردینے کے ہیں۔ اس جھکاو، سپردگی، اور سپر اندازی کے ساتھ خود رائی، خود مختاری، اور فکر و عمل کی آزادی ہر گز نہی نبھ سکتی۔ جس دین پر بھی آپ ایمان لائیں، آپ کو اپنی پوری شخصیت اس کے حولے کردینی ہوگی۔ اپنی کسی چیز کو بھی آپ اس کی پیروی سے مستثنیٰ نہی کرسکتے۔ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ آپ کے دل و دماغ کا دین ہو۔ آپ کی آنکھ اور کان کا دین ہو۔ آپ کے ہاتھ اور پاوں کا دین ہو۔ آپ کے پیٹ اور دھڑ کا دین ہو۔ آپ کے قلم اور زبان کا دین ہو۔ آپ کی محبت اور نفرت کا دین ہو۔ آپ کی دوستی اور دشمنی کا دین ہو۔ غرض آپ کی شخصیت کا کوئی جز یا کوئی پہلو بھی اس دین سے خارج نہ ہو۔ اپنی کسی چیز کو جتنا اور جس حیثیت سے بھی آپ اس دین کے احاطہ سے باہر اور اس کی پیروی سے مستثنیٰ رکھیں گے۔ سمجھ لیجئے اسی قدر آپ کے دعواے ایمان میں جھوٹ شامل ہے۔ اور ہر راستی پسند انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کو جھوٹ سے پاک رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔

انسانی زندگی ایک کل ہے جسے الگ الگ شعبوں میں تقسیم نہی کیا جاسکتا۔ لہذا پوری زندگی کا ایک ہی دین ہونا چاہیے۔ دو دو اور تین تین دینوں کی بیک وقت پیروی بجز اس کے کچھ نہی کہ ایمان کے ڈانو ڈول اور عقلی فیصلے کے مضطرب ہونے کا ثبوت ہے۔ جب فی الواقع کسی دین کا ”الدین" ہونے کا اطمینان آپ حاصل کرلیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو لازماً اس کو آپ کی زندگی کے تمام شعبوں کا دین ہونا چاہیے۔ اگر وہ شخصی حیثیت سے آپ کا دین ہے تو کوئی وجہ نہی کہ آپ کے گھر کا دین بھی نہ ہو۔ اور وہی آپ کی تربیتِ اولاد کا، آپ کی تعلیم اور آپ کے مدرسے کا، آپ کے کاروبار اور کسبِ معاش کا، آپ کی مجلسی زندگی اور قومی عمل کا، آپ کے تمدن اور سیاست کا، اور آپ کے ادب اور آرٹ کا دین بھی نہ ہو۔ جس طرح یہ بات محال ہے کہ ایک ایک موتی اپنی جگہ تو موتی ہو، مگر جس تسبیح کے رشتے میں بہت سے موتی منظم ہوں تو سب مل کر دانئہ نخو بن جائیں، اسی طرح یہ بات بھی میرے دماغ کو اپیل نہی کرتی کہ انفرادی حیثیت سے تو ہم ایک دین کے پیرو ہوں، مگر جب اپنی زندگی کو منظم کریں تو اس منظم زندگی کا کوئی پہلو اس دین کی پیروی سے مستثنیٰ رہ جائے۔

جاہلیتِ خالصہ 312

کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامہ وجود و ظہور ہے جس کے پیچھے کوئی حکمت، کوئی مصلحت اور کوئی مقصد کار فرما نہیں ہے۔ یوں ہی بن گیا ہے، یوں ہی چل رہا ہے، اور یوں ہی بے نتیجہ ختم ہو جائے گا، اس کا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان ایک قسم کا جانور ہے جو ساری چیزوں کی طرح شاید اتفاقا یہاں پیدا ہو گیا ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا اور کس لیے پیدا کیا۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اسی زمین پر پایا جاتا ہے۔ کچھ خواہشیں رکھتا ہے۔ جنہیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے۔ کچھ قویٰ اور کچھ الات رکھتا ہے جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اور اپنے گرد و پیش کے دامن پر بہت سا سامان پھیلا ہوا دیکھتا ہے جن پر یہ اپنے ان قویٰ اور الات کو استعمال کر کے اپنی خواہشوں کی تکمیل کر سکتا ہے۔ لہذا اس کی زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی طبیعتِ جوانی کے مطالبات پورے کرے، اور اس کی انسانی استعدادوں کا مصرف اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بہتر سے بہتر ذرائع فراہم کرے۔

انسان سے مافوق کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود نہیں ہے جہاں سے اس کو اپنی زندگی کا قانون مل سکتا ہو لہذا اس کو اپنے گرد و پیش کے آثار و احوال سے اور اپنے تاریخ کے تجربات سے خود ہی ایک قانون عمل اخذ کرنا چاہیے۔

بظاہر ایسی کوئی حکومت نظر نہیں آتی جس کے سامنے انسان جوابدہ ہو۔ اس لیے انسان بجائے خود ایک غیر ذمہ دار ہستی ہے۔ اور اگر یہ جوابدہ ہے بھی تو اپنے ہی سامنے ہے۔ یا پھر اس اقتدار کے سامنے جو خود انسانوں میں ہی سے پیدا ہو کر افراد پر مستوی ہو جائے۔

اعمال کے نتائج جو کچھ بھی ہیں اسی دنیا کے حد تک ہیں۔ اس کی ماسوا کوئی زندگی نہیں ہے لہذا صحیح اور غلط، مفید اور مضر، قابل اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف انہی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔

انسان جب جاہلیتِ محضہ کی حالت میں ہوتا ہے، یعنی جب اپنے محسوسات سے ماوراء کسی حقیقت تک وہ نہی پہنچتا،  یا بندگیِ نفس کی وجہ سے نہی پہنچنا چاہتا،  تو اس کے ذہن پر یہی نظریہ حاوی ہوتا ہے۔  دنیا پرستوں نے ہر زمانے میں یہی نظریہ اختیار کیا ہے۔ قلیل مستثنیات کو چھوڑ کر بادشاہوں نے، امیروں نے، درباریوں اور ارباب حکومت نے، خوشحال لوگوں اور خوشحالی کے پیچھے جان دینے والوں نے، عموما اسی نظریے کو ترجیح دی ہے۔ اور جن قوموں کی تمدنی ترقی کے گیت تاریخ میں گائے جاتے ہیں بالعموم ان سب کے تمدن کی جڑ میں یہی نظریہ کام کرتا رہا ہے۔ موجودہ تمدن کی بنیاد میں بھی یہی نظریہ کار فرما ہے۔  اگرچہ اہل مغرب سب کے سب خدا اور آخرت کے منکر نہیں ہیں۔ نہ علمی حیثیت سے سب مادہ پرستانہ اخلاق کے قائل ہیں، لیکن جو روح ان کے پورے نظام تہذیب و تمدن میں کام کر رہی ہے اور اسی انکار خدا و آخرت اور اسی مادہ پرستانہ اخلاق ہی کی روح ہے اور  وہ کچھ اس طرح ان کی زندگی میں پیوست ہو گئی ہے کہ جو لوگ علمی حیثیت سے خدا اور آخرت کے قائل ہیں اور اخلاق میں ایک غیر مادہ پرستانہ نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر اپنی واقع زندگی میں دہریہ اور مادہ پرست ہی ہیں۔ کیونکہ ان کے علمی نظریے کا ان کی عملی زندگی سے بالفعل کوئی ربط قائم نہیں ہے۔ ایسی ہی کیفیت ان سے پہلے کے مترفین اور خدا فراموش لوگوں کی بھی تھی۔ بغداد، دمشق، دلی اور غرناطہ کے مترفین مسلمان ہونے کی وجہ سے خدا اور آخرت کے منکر نہ تھے، مگر ان کی زندگی کا سارا پروگرام اس طرح بنتا تھا کہ گویا خدا ہے نہ آخرت، نہ کسی کو جواب دینا ہے، نہ کہیں سے ہدایت لینی ہے، جو کچھ ہیں ہماری خواہشات ہیں، ان خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے ذرائع اور ہر قسم کے طریقے اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں اور دنیا میں جینے کی جتنی مہلت ملتی ہے اس کا بہترین مصرف بس یہ ہے کہ:

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

 




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.