Dars e Hadis(INFAQ)

Dars at Mysore Road,14.01.2022



 
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکات

مجھے سکریٹری جماعت جناب عارف اللہ صاحب نے فون کرکے بتایا کہ اس ہفتے میرا  درس حدیث انفاق کے عنوان پر ہے۔درس حدیث دینا آسان ہو جاتا   اگر اس طرح سے عنوان کی قید نہ لگائی جاتی۔ایک ہی عنوان کو حدیث کے دائرے میں رہنا ،میرے لیے بڑا مشکل کام ہے،پھر بھی میں نے اپنے طور پر کوشش کی ہے،میرا یہ درس سکریٹری جماعت سنکر آئندہ کے لئے شایدمجھ پر رحم فرمائیں گے،


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلاَّ مَلَكَانِ يَنْزِلاَنِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا ‏.‏ وَيَقُولُ الآخَرُ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ‏"

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ !خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کنجوس کو تباہ کر دے

   اللہ کے دیے ہوئے رزق سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو انفاق فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔

اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔جو پاک رزق ہمیں دیا ہے جو حلال کمائی ہم کو حاصل ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔خرچ کرنے سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے،اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا رشتہ داروں اور پڑوسیوں اور حاجت مندوں کی مدد کرنا رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لینا اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی قربانیاں دینا مراد ہے۔بے جا خرچ اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہی ہے جسے قرآن انفاق قرار دیتا ہو۔اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے۔ اس صورت میں آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے ،مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام انفاق نہیں ہے،وہ اس کو بخل اور  شح نفس کہتا ہے۔      


اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو اللہ تعالی نے  ایسا قرض بتایا ہےجو اللہ کے ذمے واجب الادا ہے۔ اللہ تعالئ کا ارشاد ہے مال کو  اللہ کی راہ میں خرچ کرنےکی مثال ایسی ہے کہ زمین میں ایک دانا بویا جائے اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا،اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا ،جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کے اس سے سات سو دانے اُگ سکتے ہیں،اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ وہ ہماری خیرات کو بھی اسی طرح نشوونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کے اس کا اجر سات سو گنا ہو کر ہماری طرف پلٹے-


  تاریخ میں اس کی بہترین مثالیں صحابہ کرام اجمعین نے قائم کی ہیں:-

انفاق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات مبارکہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی ایک مالدار خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے شوہر تھے۔ مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی،اس مال و  دولت پر ایک کامیاب تاجر اپنی تجارت خوب چمکا رہا تھا ،مال میں خوب اضافہ ہو رہا تھا ،دولت پڑھ رہی تھی ،تجارت چمک رہی تھی،اللہ تعالی نے آپ پر نبوت کا ذمہ داری  ڈالی،ادھر دعوت دین کا کام چل رہا تھا،جب جب دعوت کے لیے  مال کی ضرورت پڑی حضرت خدیجۃالکبریٰ نے اپنا مال دل کھول کر خرچ کیا ،مکے کی امیر ترین خاتون حضرت خدیجۃ الکبری اور مکہ کے سب سے بہترین تاجر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر فاقوں کی نوبت آگئی۔ 

اس کے بعد اسی مکہ شہر میں دوسری مثال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ملتی ہے جس میں اسلام لانے والے غلاموں کو کفار مکہ کے ظالم حکمرانوں سے اپنا عزیز ترین مال خرچ کرکے ان کو آزاد کرایا۔مدینے کے اوس خزرج نے بھی تاریخ میں اپنا مقام بنایا ہے۔انہوں نے مکے کے مہاجروں کے لیے اپنےشہر کے دروازے کھول دیے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر اور انصار کو آپس میں بھائی چارہ کرادیا،انصار نہیں چاہتے تھے کے مہاجرین کسی طرح سے مدینے میں کوئی کمی محسوس کریں،ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ مہاجرین جو اپنا گھربار عزیز و اقارب چھوڑ کر آیے ہیں،ان کو  مدینے میں کسی طرح کی کمی محسوس نہ ہونے دی جاے،انصار نے یہ عمل چندہ کر کے یا تھوڑی تھوڑی رقم جمع کر کے مہاجرین کو نہیں دی ،بلکہ اپنی پراپرٹی کا آدھا مال انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو دیا،ان کی یہ بے نظیر مثال تاریخ قیامت تک نہیں بھلائے گی،یاد رہے کہ یہ اس زمانے کی مثالیں ہیں جبکہ ایک باپ کی اولاد اپنے  بھائیوں میں جائیداد کی تقسیم میں بے انصافیاں کیا کرتے تھے ،یتیم کا مال کھانے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے تھے،قافلے کو لوٹنا لوٹ کا مال کھانا آئے دن کا معمول تھا،بچوں کو اکیلا پاکر غلام بنا کر بیچنا ان کا مشغلہ تھا،  مال سے اتنی محبت کرنے والے عرب،اپنے مہاجر بھائیوں کو جو کل تک ان کا نام تک نہیں جانتے تھے اپنے مال کا آدھا حصہ با رضا و رغبت بہت شوق سے کوئی دل میں تنگی محسوس کئے بغیر، کیا یہ مثال دنیا میں اور کہیں ملے گی۔


"تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اللہ کی راہ میں ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم پسند کرتے ہو اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے اللہ تعالی کو اس کا علم ہے " آل عمران 

حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے کھجور کے باغات میں سے ایک باغ سب سے زیادہ پسند تھا ۔یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی تشریف لے جاتے اور اس کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی نوش فرماتے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے اموال میں یہ باغ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے ۔میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں ۔اس سے اس کے اجر و ثواب کی توقع ہے آپ اسے اللہ کے حکم کے مطابق جس طرح چاہے استعمال فرما یں۔ آپ نے ان کے اس جذبے کے ستائش کی اور کہا بہت خوب !میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو  (غالباً وہ ضرورت مند رہے ہونگے )چنا نچے انہوں نے اپنا یہ قیمتی باغ رشتے داروں میں تقسیم کردیا۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:- 

 ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میرے پاس ایک دینار ہے اسے کہاں خرچ کروں،آپ نے فرمایا :اپنی ذات پر خرچ کرو ۔اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور دینار ہے ،آپ نے فرمایا اسے اپنے بچوں پر خرچ کرو ۔اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور دینار بھی ہےآپ نے کہا اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو ۔اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔آپ نے فرمایا  اسے اپنے  خادم پر خرچ کرو۔اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینا بھی ہے آپ نے فرمایا کہ تم خود اس کا مصرف بہتر سمجھ سکتے ہو۔  

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں (غزوہ تبوک کے موقع پر ) رسول اللہ نے ہم لوگوں کو انفاق کا حکم دیا ۔

اس وقت اتفاق سے میرے پاس کافی مال موجود تھا میں نے خیال کیا کہ آج بس !ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بازی لے جانے کا موقع ہے ۔چنانچے میں اپنا آدھا مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا۔آپ نے دریافت فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے ؟میں نے عرض کیا اتنا ہی مال ان کے لئے بھی چھوڑ آیا ہوں ۔اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا پورا مال ہی لے کر حاضر ہو گئے ،آپ نے ان سے بھی یہی دریافت فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے ؟انہوں نے عرض کیا ان کے لئے اللہ اور رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔اس پر میں نے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے میں کسی معاملے میں آگے نہیں بڑھ سکتا ۔

غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق کی ترغیب دی تو 

حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور فرمایا :اے اللہ کے رسول !میرے ذمہ سو اونٹ ہیں،میں انہیں پشت پر ڈالے جانے والے کپڑوں اور کجاووں کے ساتھ فراہم کروں گا۔دوبارہ آپ نے ترغیب دی تو حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں اس طرح کے 200 اونٹ کی ذمہ داری لیتا ہوں۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ترغیب دی تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں 300اونٹ کی ذمہ داری لیتا ہوں۔حدیث کے راوی حضرت عبدالرحمن بن خباب کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممبر سے یہ کہتے ہوئے اترے کے اس کی بعد عثمان کچھ بھی کریں انہیں کوئی نقصان نہ ہوگا۔(یعنی اس کے بعد ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اللہ تعالی اس عظیم خدمت کے عوض انہیں معاف فرما دے گا ۔)  

عبدالرحمن بن سمرہ اسی غزوے کا ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عثمان ایک ہزار دینار لائے اور آپ کے دامن میں ڈال دیئے ۔میں نے دیکھا کہ آپ اپنے دامن میں انہیں الٹ پلٹ کر رہے تھے اور بار بار فرما رہے تھے کہ عثمان آج کے بعد کچھ بھی کریں انہیں نقصان نہ ہوگا !۔  


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :-

ایک آدمی نے سوچا کہ میں آج ضرور کچھ خیرات کروں گا۔ چنانچے وہ رات کے وقت مال لے کر صدقہ دینے کے لیے نکلا ،مگر اندھیرے کی وجہ سے صدقے کی رقم ایک چور کے ہاتھ میں دے آیا ۔صبح ہوئی تو لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات ایک چور کو خیرات دی گئی۔

اس آدمی نے سنا تو کہا اے میرے اللہ حمد تیرے ہی لیے ہے کہ صدقہ چور کو مل گیا  

اب آج رات میں پھر خیرات کروں گاچنانچے اگلی رات وہ پھر صدقہ دینے کے لیے نکلا ،مگر اب کے ایک بدکار عورت کے ہاتھ پر رکھ آیا ۔صبح ہوئی تو لوگوں میں پھر چرچا ہوا کہ آج رات ایک بدکار عورت کو خیرات دی گئی۔

اس آدمی نے یہ سنا تو کہا اے میرے اللہ حمد تیرے ہی لئے ہے کہ صدقہ ایک بدکار عورت کو مل گیا 

اب آج رات میں پھر خیرات کروں گا 

تیسری رات کو پھر نکلا مگر اب کے صدقہ ایک دولت مند شخص کو دے آیا صبح ہوئی تو لوگوں میں پھر چرچا ہوا کہ آج رات ایک دولت مند شخص کو خیرات دی گئی۔

اس آدمی نے یہ سنا تو کہا اے میرے اللہ ساری حمد تیرے ہی لیے ہے کہ صدقہ کبھی ایک چور کو کبھی ایک بدکار عورت کو اور کبھی ایک دولتمند کو مل گیا!

اسے خواب میں بتایا گیا تیرے سارے صدقات قبول ہو گئے ممکن ہے کہ جو صدقہ تو نے چور کو دیا وہ اسے چوری سے باز رکھے،جو تو نے بدکار عورت کو دیا وہ اسے بدکاری سے باز رکھے اور جو تو نے دولت مند کو دے دیا اس سے وہ عبرت پکڑے کے جو کچھ مال اللہ نے اسے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔


"مال دینا مٹھی بھر بھر کر دینا، صرف اللہ کی رضا پر نظر رکھتے ہوئے دینا، اگر وہ ایسی جگہ بھی چلا جائے  جو دینے والے کے نزدیک مستحب یا صحیح نہ ہو مگر دیتے رہنا یہی اللہ کو محبوب ہے۔

نہ یہ کہ جو مانگے اس کے بارے میں مکمل تحقیق کرنے پر تلے رہنا، اور اللہ کے لئے دینے کے بعد معلوم ہوا کہ غلط آدمی کو چلا گیا تو کف افسوس ملنا۔ نہ یہ  کے کسی ایسے دینی کام میں نہ دینا جو اپنی مرضی کے مطابق نہ ہو، یا اس کے نتائج اپنے پسند کے مطابق نہ نکلیں،  تو کہنا کے میرے پیسے ضائع ہوگئے۔ پھر تو دینا اللہ کے لیے نہ ہوا، اپنی مرضی یا نتائج کے لیے ہوا۔"


    اسلامی حکومت کو یہ ہدایت تھی بیت المال کی رقم میں ایک حصہ غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے خرچ کیا جائے۔ قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے ہوتے تھے ایک جنگی قیدی، دوسرے آزاد آدمی کو پکڑ پکڑ کر غلام بناکر بیچ ڈالا جاتا تھا، تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آرہے تھے اور کچھ پتہ نہیں تھا کہ ان کے آباؤ اجداد کب سے غلام بنائے گئے تھے۔

دنیا بھر کا معاشرہ  معاشی وہ معاشرتی نظام انہیں غلاموں کے سہارے چل رہا تھا ۔اسلام نے ایک زبردست اخلاقی تحریک شروع کی اور لوگوں کو اس بات پر ابھارا کے اپنے آخرت کی نجات کے لئے غلاموں کو آزاد کریں۔اپنے گناہوں کے کفارہ کے طور پر غلام آزاد کریں ۔

اس طرح کی تحریکوں سے پورے عرب میں غلاموں کے اس رواج کا خاتمہ ہوا ۔

خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 63 غلاموں کو آزاد کیے،آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67،تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زندگی میں ستر غلاموں کو آزاد کیا ،حکیم بن حزام نے سو غلاموں کو آزاد کیا،عبداللہ بن عمر نے ایک ہزار ذوالکلاع حمیری نے آٹھ ہزار اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے 30000 غلاموں کو رہائی بخشی ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے نام بہت ممتاز ہیں ۔خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید کر آزاد کر تے چلے جاتے تھے،اس طرح انفاق کے ذریعے غلاموں کے دور کا خاتمہ خلفائے راشدین کے زمانے ہی میں ختم ہو رہا تھا۔


"یہ وہ مثالیں ہیں جو ہمیں قرآن سیرت صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعات سے ملتے ہیں،جن سے اسلام کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے نبی کی لیڈرشپ میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین کا جدوجہد مسلسل جدوجہد،ہر میدان میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنی جدوجہد میں کوئی کمی کی ہو،اسی جدوجہد کی برکتیں ہیں جو آج دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں یہ مساجد یہ مدرسے یہ خدمت خلق کے کام انہی لوگوں سے تو ہمیں وراثت میں ملا ہے آج ہم اور ہمارے اطراف دیکھ رہے ہیں،ان کے انفاق سے ان کی قربانیوں سے اس کے اثرات آج بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں،آج بھی اگر کوئی شخص انفاق کے معاملے میں آگے بڑھتا ہے تو کسی نہ کسی صحابی کے عمل عکاسی کرتا ہئے۔ 

آج کا ہمارا انفاق ہماری نسلوں کے لئے فائدہ مند ہوگا،اللہ کا کلمہ بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوگا،ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے،جس طرح آج ہم صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین کو کامیاب سمجھتے ہیں،اسی طرح ہماری آئندہ کینسل ہمیں کامیاب سمجھے گی"۔اللہ تعالی ہم سب کو دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔  

آمین 

والسلام عبدالعلی 

چامراج پیٹ بنگلورو  





Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.