
السلام
علیکم
سفیر
محمد صاحب کی موت کی خبر سن کر بے حد صدمہ پہنچا۔ان کی اچانک موت نے ہم سب کو
جھنجھوڑ کر رکھدیا ہے۔ایسی ہی ایک موت سترہ سال پہلے ہم نے دیکھی تھی۔ جو آج تک
بھلائی نہی گئی ۔ وقتا فوقتا چہرا سامنے آجاتا ہے۔ سفیر محمد صاحب کی موت نے
ایک بار پھر نصیر محمد صاحب کی یاد دلا دی۔سفیر محمد صاحب غالبا اپنے بھائی نصیر
محمد سے بے انتہا محبت کرتے ہونگے۔ان کو اپنا آئڈیل بنایا ہوگا ۔ کیونکے تحریک میں
ان کی دلچسپی اپنے بھائی نصیر محمد صاحب کے انتقال کے بعد ہی سے ہم نے محسوس کی
ہے۔ویسے بھی دیکھا جائے تو نصیر محمد صاحب عشاء نماز کی امامت کرکے فجر سے
عشاء تک پوری نمازیں ادا کرکے اور بھائی سفیر محمد عشاء کی جماعت کے مقتدی کی
حیثیت سے، دونوں بھائی ایک ہی مسجد کے امام اور مقتدی بن کر، آخری سفر پر
روانہ ہوئے۔
سفیر
محمد صاحب کی خدمات
تحریک
کے لئے محدود مدت کے لئے رہی ہے۔مگر اس محدود مدت میں اللہ نے بلا کی برکت ڈال دی
تھی۔ان کے تحریک میں آنے سے بہار آگئ تھی۔وہ جس محفل میں رہتے وہ محفل بڑی
جاندار ہوتی تھی۔سنٹر سے اجتماع اور نمازوں سے فارغ ہوکر کافی دیر ٹہرتے اور
ملاقاتیں کرتے۔پھر اپنے ذمہ داری کا بھی کام ہوتا جسےخوش اسلوبی سے انجام دیتے۔
سفیر
محمد صاحب اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے کسی خاص ٹکڑے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے
نہی تھے۔بلکے وہ سارے کے سارے دین پر عمل کرنے والے انسان تھے۔وہ اپنے اطراف پھیلی
ہوئی دنیا اور اس کی زینت سے مرعوب نہی ہوئے۔انہوں نے دنیا حاصل کرنے کے لئے ہر
اچھا اور غلط راستہ نہی اپنایا۔اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر
دنیا بنائی۔دنیا بنانے اور اس دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے کبھی جھوٹ،حق تلفی،
مکاری،دھوکا،گالی،فریب،اور چاپلوسی کا راستہ اختیار نہی کیا۔ بلکہ اللہ کے بتائے
ہوے راستے پر چل کر دنیا کو اور دنیا میں اپنے مقام کو بنایا۔ایسے نیک دل،ہنس
مکھ،سنجیدہ مزاج رکھنے والے سفیر محمد صاحب، جو کسی کو مشورہ اور رائے دینے پر بھی
مخلص تھے۔جن سے ہر کوئی یہ خواہش رکھتا تھا کہ سفیر محمد میرے خاص دوستوں
میں سے ہوتے۔سفیر محمد صاحب کی خوبیوں سے ہر کوئی واقف تھا ۔ان کی زندگی کا ہر ایک
عمل لوگوں کے سامنے عیاں تھا۔جو لوگ ان کو قریب سے جانتے تھے قریب سے دیکھتے تھے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کبھی ہم نے سفیر محمد کو کسی کی شکایت کرتے نہیں سنا ۔کسی
کی پیٹھ پیچھے برائی کرتے نہیں سنا ۔کسی سے الجھتے نہیں دیکھا ۔کبھی کسی نے الجھنے
کی کوشش کی تو عفو درگزر کا معاملہ کرکے ختم کر دیتے تھے ۔اپنی زندگی کے روزمرہ کے
جو کچھ بھی معاملات تھے ان معاملات میں صاف تھے۔اللہ تعالئ نے ان کے اندر قوت
برداشت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔کسی بھی معاملے میں اپنے دلائل معقولیت کے ساتھ
دیتے۔ ان کے تعلق سے کسی کو ایک ہلکی سی شکایت بھی نہیں تھی ۔لوگوں نے ان کے بڑے
بھائی کو دیکھا ہے بڑی تیز اسپیڈ کے ساتھ تقریر کرتے۔ ان کی تقریر کو لوگ پسند
کرتے۔بھائی سفیر محمد صاحب بڑی تیز اسپیڈ کے ساتھ تقریر کے بغیر تحریک میں آے لوگ
ان کو بھی پسند کرتے تھے۔دونوں بھائیوں میں اسپیڈ کی مماثلث تھی۔میں نے جمعہ کی
نماز کے بعد اسلامک سنٹر میں رقت کا سماں دیکھا۔میں ہر اک سے ملتا رہا سفیر محمد
صاحب کا تذکرہ کرتا ۔غم سے نڈھال لوگ میرے تذکرے پر چہرے پر مسنوعی مسکراہٹ لاتے،
آواز رندھ جاتی تھی ۔آنکھ چھلک پڑتی۔ مجھے سفیر محمد صاحب کی موت سے زیادہ اسلامک
سنٹر میں لوگوں کے غمزدہ چہروں نے تڑپا دیا۔ ایسے غمزدہ چہرے میں نے اپنی
زندگی میں کبھی نہیں دیکھے۔دل غم سے نڈھال ہورہا ہے کس کے لئے؟
اس
کے لئے جو ہم میں سے کسی کا کوئی رشتہ دار نہی تھا۔یہ روحانی لگاو اس شخص سے جس کے
پاس کوئی زور نہی، کوئی سیاسی طاقت نہی، کوئی اداکار نہی۔اوران کا کسی پر
مالی احسانات کا بوجھ بھی نہی۔
مجھے
ہر چہرے میں غم اور ہر آنکھ بھیگی نظرآئی۔ میرے بہنوئی عبدالرشید صاحب نے یہ تک
کہا کہ اگر وہ ہاسن سے ہجرت کرکے بینگلورو بھی جاتے تو لوگ ان کے جانے پر غمگین ہو
جاتے ۔جب کہ وہ ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالی کا سب سے بڑا احسان
ہے کہ اس نے سفیر محمد جیسا کارکن تحریک اسلامی کو عطا کیا۔ جن کے ذریعہ سے تحریک
کو چار چاند لگ گئے۔لوگ ان کی خوبیوں سے تحریک کو جانتے رہے۔ اپنی تمام خوبیوں کا،
اپنی تمام صلاحیتوں کا، اپنے تمام اچھے عمل کا ایڈریس انہوں نے تحریک اسلامی کا
دیا ۔آج بھی شہر ہاسن میں اور ان کے دوستوں میں ان کے چرچے ہورہے ہیں۔ان کے کردار
کی تصویر کشی کی جارہی ہے۔ان کی خوبیوں کو گنایا جارہا ہے۔ایسی خوبیوں والا
شخص۔نمازی، پنج وقتہ نمازی،ایسی خوبیاں والا نمازی انسان ہماری صفوں میں کم سے کم
ہوتے جارہے ہیں۔ وقت کا اہم تقاضہ ہے ایسے خوبی کے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں
نمازی بنایا جائے۔ اور ان کے ذریعہ سے پتہ چلے کہ اسلام کی اسپرٹ ایسی ہوتی ہے۔
اسلام کی ایسی ڈمانڈ ہوتی ہے۔ اور اسلام کا پراڈکٹ ایسا بنتا ہے۔جس کی زندگی پر ہر
ایک کو رشک آئے۔جس کی موت پر آنکھ رویے۔
سفیر
محمد صاحب کے موت ہمارے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان کی موت میں ہمارے لئے سبق ہے
۔یہی کہ ہم کسی پر ظلم نہ کریں،فائدہ حاصل کرنے کے لیے ناجائز راستہ اختیار نہ
کریں ،نقصان سے بچنے کے لیے کسی کو دھوکا نہ دیں ،غیر ضروری بحث میں نہ پڑیں،اپنی
بات چلانے پر اصرار نہ کریں،لوگوں کی عزت کریں۔کسی کا مزاق نہ اڑائیں، گالی کا
جواب گالی سے دیکر اپنی شخصیت کو ڈاون گریڈ نہ کریں۔ جماعت میں اس کی
بھر پائی ہونا انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں رہنے والے
نیک،ایماندار،سچے،شریف،لوگوں کو ڈھونڈیں اور انہیں تحریک سے قریب کریں اور ان کو
نماز کا پابند بنائیں۔ اللہ اور اس کے رسول کےبتائے ہوئے طریقے پر چلنے نماز سے
مدد لیں۔ہم اپنی تمام خواہشوں اور ضرورتوں کو ٹھوکر ماریں جس سے اللہ اور اس کے
رسول کی زرا بھی نافرمانی کا خدشہ ہو۔ایسے لوگوں کو نکھار کر میدان میں لایا
جائے۔ایسے افراد کو سوسائٹی کے معزز اور با اثر بنایا جائے۔سفیر محمد کے انتقال پر
غم کا جو پہاڑ ان کے افراد خاندان پر ٹوٹا ہے۔ویسا ہی غم تحریکی افراد میں بھی
پایا گیاہے۔
![]() |
| State Secratory jih Karnataka, Abdul Gaffar Hamid Umri sb. |
بھائی
سفیر محمد رکن جماعت جن کو
اللہ اپنی مخصوص آغوشِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے(آمین) اچانک کل رات انکے انتقال کر
جانے کی خبر نے ہم سبھی کو طریقہ موت اور فکر آخرت کی یاد تازہ کر دی ہے کل نفس
ذائقۃ الموت کے مطابق ہم سبھی کو کسی بھی وقت اس فانی دنیا کو خیر باد کرنا ہے_
اللہ تعالیٰ ہمارے نصیب میں مسلمان کی موت رکھے آمین _ جناب سفیر محمد تحریک
اسلامی ہند کے ایک باعمل مخلص رکن ہونےکے ساتھ ساتھ بہت ساری اخلاق حسنہ اور
خوبیوں سے متصف تھے ناظم علاقہ کی حیثیت سے مجھے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع
ملا ہے بلکہ بہت سارے ذاتی اور تحریکی مسائل کو لے کر راست اور بذریعہ فون مشورے
فرمایا کرتے تھے اور اکثر اطمینان کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے_ آپ منکسر المزاج
سلیم القلب اور خاموش طبیعت کے مالک تھے _ موصوف کی گھر اور جماعت کی زندگی میں
کوئی فرق نہیں تھی جس طرح رفقاء جماعت کے ساتھ انتہائی اخوت محبت شفقت الفت
خیرخواہی ہمدردی و مہمان نوازی کا مظاہرہ فرمایا کرتے تھے _ عین اسی طرح اپنے اہل
خانہ کے ساتھ سلوک فرمایا کرتے تھے واقعتاً صبر و استقامت کے ساتھ ہر قسم کے
معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتے بزرگوں کے ساتھ ایک بزرگ اور نوجوانوں کے ساتھ ایک
نوجوان کی رہنا ان کی ایک خاص خوبی تھی کسی بھی رفیق کے متعلق کسی بھی قسم
کی شکایت کرتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا _ بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ محض
اپنے فضل و کرم سے مرحوم کی مذکورہ اعلیٰ و ارفع خوبیوں شرف قبولیت عطا فرمائے اور
جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور ان کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور
ان کے دونوں فرزندوں کو نیک صالح بنائے اور تحریک اسلامی سے وابستگی عطا فرمائے
مرحوم کی بھی یہ بڑی خواہش تھی _ مولانا حامد عمری
![]() |
| Syed Abdul Khaliq Nazim e Elaqa Hassan |
محترم
جناب سفیر محمد صاحب انتہائی مخلص اور خاموش طبیعت کی حامل،صبر و شکر،استقامت،اور
ایثار و ہمدردی کا پیکر تھے۔جماعت کی جانب سے دی جانے والی ذمہ داریوں کو احسن
طریقہ سے انجام کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔
دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے،جنت
الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے،اُن کے خدمات کو شرفِ قبولیت عطا کرے اور تمام
متعلقین کو صبرِ جمیل عطا کرے،آمین
فقط
سید عبدالخالق
![]() |
| Maulana Ansar Nadvi Sabiq imam o khateeb jamia masjid Hassan |
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
وبرکاتہ
امید ہے گروپ کے سبھی احباب بخیر ہوں گے !
جناب مرحوم سفیر محمد صاحب سے متعلق تعزیتی نششت سماعت
فرمائیں.ماشاءاللہ برادرم محسن اقبال صاحب نےمرحوم کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے جو
شعر پڑھا مجھے ایسا لگا کہ آپ نے مرحوم کی پوری زندگی کی خوبیوں کو
اجاگرکردیاہو....
کیف پیداکر سمندر کی طرح
وسعتیں خاموشیاں گہرائیاں
حقیقتاً مرحوم ان تمام خوبیوں کےحامل تھے, اللہ تعالٰی
نے انھیں بے پناہ خصوصیات وامتیازات سے نوازا تھا ،حسن اخلاق ، حسن کردار
اور تواضع وانکساری کے ساتھ ساتھ رحمت و رافت اور شفقت ومحبت کا پیکر مجسم
تھے،، ہر شخص خواہ وہ معروف ہو یا غیر معروف بڑے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملتے
تھے،اپنی خدمات سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے والےتھے
جب جہاں بھی دیدار کا شرف حاصل ہوا
نظروں میں محبت کے سوا کچھ نہیں پایا
ہم کلامی کا شرف جب کہیں بھی مل سکا
باتوں میں حلاوت کے سوا کچھ نہیں پایا
یوں تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو گل و بلبل سے محبت کرتے
ہیں سوسن ونسترن چمبیلی ویاسمن کو چاہتے ہیں مگر یہی ذوق جمال نکھر کر انسان کی
گفتگو میں آئے اس کی اداؤں میں جگہ پائے اور اس کی چال ڈھال اور کردار واطوار میں
اسی ذوق جمال کی کارفرمائی اور جلوہ نمائی ہو اور وہ جب بھی لب کھولے پھول جھڑیں،
اس کا کردار بھی گل فشاں ہو، گفتار بھی عطر فشاں، اس سے مخاطب ہونے والا، اس کے
پاس آنے والا اور اس سے کچھ لمحوں ہی کے لیے سہی قریب ہونے والا بھی اس کے انفاس
کی بھینی بھینی خوشبو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے ایک ایسی ہی گل بداماں، باغ و بہار
اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھےجناب مرحوم سفیر محمد صاحب
ہماری دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی جملہ کاوشوں اور
دین وملت اور انسانیت کے لئے کی گئی تمام کوششوں کو شرف قبولیت سے ہمکنار فرمائے
اور اس کا بہترین بدلہ نصیب فرماکر اپنے عرش کے سائے میں جگہ نصیب فرمائے,وارثین
اعزہ واقرباءاور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے,
آمین یارب العالمین ۔
محمدانصارندوی







