2 khawateen

 

 السلام علیکم

دنیا میں ہر طرح کے لوگ رہتے بستے آئے ہیں ،کسی کی خواہش دولت کمانے کی ہوتی ہے ،اور وہ دولت میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں ،کسی کی سیاست میں خواہش ہوتی ہے اور وہ سیاست میں اپنا نام اور مقام بناتے ہیں۔وہ ہنر بیکار اور نا قابل استعمال ہےجس سے دنیا کو کوئی فائدہ نہ پہنچے،اس دنیا سے جن جن لوگوں نے قابلیتیں اور صلاحیتیں حاصل کی ہیں، وہ اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو اسی دنیا میں کھپایا ہے ، دنیا صلاحیتوں کے حاصل کرنے اور اپنی حاصل کردہ صلاحیتوں سے عوام کو فیض پہنچانے کا میدان ہے۔
کچھ لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے بھی اپنا پیسہ، وقت،عمر کا بڑا حصہ لگا دیتے ہیں۔تب کہیں جاکر انہیں اس میدان میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ  اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح دین کا علم جو ہمیں حاصل ہے وہ لوگوں تک پھیلے، لوگوں تک پہنچے، لوگ اس دین پر عمل کرکے بتائیں کے حقیقت میں دین کیسا ہے، اور کیا اس کے فائدے ہیں۔ دین سے فطری محبت نہ ہو ، بلکہ اس پر چل کر عمل میں لانے سے جو محبت و عقیدت، احترام و عزت،قدر و قیمت دل میں رچے بسے ۔ اس کام کو وعظ و نصیحت، تبلیغ ، تلقین ، تعلیم کے ذریعے سے ہی انجام دیا جاسکتاہے۔
   ایسے عالم اور قابل لوگ ہمارے علم میں آجائیں،تو ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں سے ہم اور عوام الناس کو خوب فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔ ایسے لوگ سے ہم پر  اللہ کا انعام  ہوتا ہے ۔ان کا مقام یہ ہے کہ وہ لوگوں کی اصلاح کرنے میں اپنی تمام توانائیاں اپنی تمام محنتیں،اپنی تمام صلاحیتیں عوام الناس کو ٹھیک کرنے اور خدا کی طرف رجوع ہونے پر لگا دیں۔
ایسی ہی خواتین میں دو شخصیتیں ہاسن میں موجود ہیں، جن کی قابلیت ہاسن کے ارکان اور کارکنان  جماعت سے  چھپی ہوئی نہی ہیں۔
ہمارے پاس بڑی جماعت ہے،اچھے افراد ہیں وسیع میدان ہے ،اور علمی  صلاحیتوں سے مالا مال مقرر ہیں ، بس ہماری توجہ صرف کام پر لگی ہے۔ اگر کسی شعبہ کی اہمیت نہی تو وہ صرف تقریر، درس،وعظ و نصیحت کا۔  باقی تمام شعبہ اپنے پورے شان و شوکت سے لبریز ہیں۔ ہمارے وہ لوگ جو تقریر اور درس سے خالی ان کی پھیلائی ہوئی باتوں کے زد میں آگئے ہیں ،وہ نادان یہ نہی جانتے کہ تقریر اور درس کیا ہوتا ہے۔ بڑی بڑی حکومتیں زبان سے ڈری ہیں۔تقریروں کے زور سے ملک پر ملک آپس میں لڑے ہیں۔تقریروں کے بل پر عصبیتیں فروغ پائی ہیں۔تقریروں نے امن و سلامتی کی جگہ ظلم و تشدد کی آگ بھڑکائی ہے۔اور یہ صرف اس وجہ سےہوا کے ہم نے تقریروں کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کا کام کرنا چھوڑدیا ہے۔
میں آپ سب کی توجہ ہاسن میں ان دو خواتین کی طرف دلا رہا ہوں جن کے استعمال سے صرف تحریک ہی کو نہی بلکہ پورے شہر اور پوری ریاست کو اس سے فیض پہنچا یا جاسکتا ہے۔ ایک وہ ہماری تحریکی کارکن ہے۔ جن کے والدین نے اپنی لخت جگر کو بہترین صلاحیتوں سے آراستہ کیا ۔ اور انہوں نے صرف  اپنے ہی ملک کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہی کیا۔ بلکہ اعلئ قابلیت حاصل کرنے کے لئے اپنے علم کے مطابق دنیا کی بڑی سے بڑی درس گاہ میں علم حاصل کرنے کے لیے بھیجا ۔

دوسری ایک  رکن جماعت ہے۔ جس کی قابلیت و صلاحیت سے جماعت سے منسلک ہر فرد واقف ہے۔ ان کے والدین نے ان کو ہر طرح کی تعلیم سے آراستہ کیا۔انہیں ہاسن کی خواتین میں سب سے کم عمر کی رکن جماعت ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ان دونوں کے ہنر  سے ہاسن شہر میں اصلاح کے نئے نئے راستے کھل سکتے ہیں ۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کو ریاستی سطح کے عہدے دے کر اونچے مقام پر بیٹھا کر بھی جماعت یا عوام کو یا خود ان کو بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکتا۔یہ دو اس ریاست کی فرحت ہاشمی سے کم نہی ہیں ۔ ان سے ہم فرحت ہاشمی جیسے ہی کام لیکر ان کی صلاحیت کی صحیح قدر کرسکتے ہیں۔ اور لوگوں کو یہ تائثر دے سکتے ہیں کہ اس تحریک میں اس طرح کا علم رکھنے والوں کو جو ذاتی حیثیت سے بلند کردار اور اچھے اخلاق اور بہترین سلوک کی مالک ہوتے ہیں۔ ان کی یہاں پر بہت قدر ہوتی ہے ۔ ان پر ہونے والے سلوک کو دیکھ کر لوگوں میں اشتیاق ہو کہ ہمیں بھی ایسا بننا  چاہیے۔
    ان سے وہ کام لیا جائے جس سے عوام اور جماعت دونوں کو بھر پور فائدہ پہنچے۔ لوگوں کی زبانوں پر جماعت کا چرچا، جماعت کے پروگرام کا چرچا ہو۔
اللہ نے ان کو جو صلاحیت دی ہے، اس صلاحیت کو مارکٹ میں پورے زور و شور سے اتارنے کی ضرورت ہے۔ ان کی زبانیں عوم الناس کے سوچ کو بدلی ہیں ۔ عوام کے اخلاق و کردار میں سدھار کے لئے ان کی زبانوں کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
ہمارا معاشرہ بری طرح تباہ ہوتا جارہا ہے،تعلقات میں دراڑیں پیدا ہورہی ہیں۔ قرآن کی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی گزررہی ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ قابل لوگ میدان میں اتریں اور تحریک کی آواز پر لبیک کہنے والے افراد کی اس حد تک اصلاح کردیں کہ وہ اپنے گھر کا معزز ترین فرد ہوجائے۔ اپنے رشتےداروں کا پسندیدہ شخص بن جائے۔ بیوی بچوں کا مظبوط سہارا بن جایے۔ اب تو ہمارے کارکن ہی کے نہی بلکے ہمارے نئے ارکان کی بھی اصلاح ہونا ضروری ہے۔ اب ایسے ایسے لوگ اسٹیج پر آرہے ہیں جن کی صلاحیت یوٹیوب کی جھوٹی مگر دلچسپ مواد کو پیش کرتی ہے۔ غالب اور اقبال کے جھوٹے اشعار سے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہیں۔
ہمارے پاس ایک مقرر آتا ہے تو اسی لیول کے دوسرے مقرر کو خاموش کرادیا جاتا ہے۔ اور یہ کام ہماری تحریکی جماعت میں ہوتا ہے، جب کے یہاں کا عمل سب کو معلوم ہے کہ یہاں ہر کام خدا کی رضا مندی کے لئے کیا جاتا ہے۔ فلمی دنیا جس طرح سے ترقی کے منازل پر رہی ہے ۔اس  وجہ سے نہی کہ یہاں محمد رفیع ہے،قادر خان کے لئے جگہ نہی ہے۔ یا پھر راجیش کھنہ ہے اور امیتابھ بچن کے لئے جگہ نہی ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہر طرح کے اداکار ہیں اور اپنی اداکاری سے لوگوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی دینی انڈسٹری کو کامیابی کے مقام پر پہنچانے میں لگاتار ناکام ہوتے جارہے ہیں۔ ہم میں اگر ایک موجود ہے اور دوسرا آرہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہی کے پہلے کو چھوڑ کر دوسرے کی طرف لپکیں۔ اللہ نے پہلے کو دوسرے کا مددگار بننے کے لئے بھیجا ہے۔ ایک سے دو اور دو سے چار ہونے پر کام کی رفتار وہ نہی ہونی چاہیے جو پہلے تھی۔ہم اپنے ذمہ داروں کو اس بات کی طرف باربار توجہ دلاتے رہنا چاہیے۔کیونکے ان جیسے افراد کا صحیح استعمال ہو۔  وقت کم ہے عنقریب بولنے اور سننے کے موقع چھین لئے جائنگے۔

واسلام
عبدالعلی ہاسن



 


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.