السلام
علیکم
آہ زاہد عمری !
جماعت کے وھاٹس ایپ گروپ میں ماجد صاحب کی خبر نے میرے
ہوش اڑا دیے۔نہ کوئی بیماری نہ کمزوری،روزانہ کی طرح اپنے کام، پھر کام سے گھر،
اپنے کام سے مشغول و مصروف شخص کے انتقال کی اچانک سے خبر آجانا، ہوش اڑانے سے کم
نہی تھا۔
ابھی وہ اپنی اولاد کی کامیابیوں کی بلندیوں کو دیکھ کر
اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے ہی والے تھے،چند ہی سال میں اپنی چھوٹی بیٹی کو ڈنٹیسٹ
ڈاکٹر بنتےہوے دیکھنے ہی والے تھے۔
اپنے 25سالہ بیٹے(کامران) کو ہاسن سکلیشپور میسور
کولیگال وغیرہ میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوے دیکھنے ہی والے تھے۔کامران جس کے
اخلاق و کردار کا قائل سورنا ہوٹل(سوورنا گروپس) اپنے تمام تعمیرات کو کامران کے
ہاتھوں سونپ کر اطمینان ہوجاتا ہے۔انجینیر کامران اپنا پورا کام ایمان داری کے
ساتھ مکمل کرکے اپنے کلاینٹس کو بے حد خوش کردیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ اخلاق و
کردار انجینیر کامران کے اندر کہاں سے آیے؟
ہماری تعلیم اچھے انجنیر تو فراہم کرتی ہے۔مگر مارکیٹ
کا تقاضے صرف اچھے انجنیر سے پورے نہی ہوتے۔مارکٹ ایماندار سچا محنتی اچھے اخلاق و
کردار کے انجنیر کا تقاضہ کرتی ہے۔جو صرف مسلم(اللہ جن کاموں کا حکم دے اسے بجا
لانا اور جن سے روکے رک جانا) کی شکل میں پائی جاتی ہے۔اور جسے پروان چڑھانے
میں ہماری عبادتیں مدد گار ہوتی ہیں۔
زاہد عمری کا بچپن ہاسن میں گزرا۔علم
حاصل کرنے کے لئے عمرا باد کے مدرسے میں داخلہ لیا۔جہاں ان کے بہنوی درس و تدریس
کی خدمات انجام دیتے تھے۔ وہ اور ان کے بھائی شاہد عمری دونوں عمراباد سے فارغ
ہیں۔
زاہد عمری مجھ سے کافی سینیر ہوتے ہوے بھی، میرے ان
سےکافی گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔کبھی ملتے تو دیر تک گفتگو کرنے کا دل چاہتا۔پوری
یکسوئی سے بات کو سنتے،بات بھی دلائل سے کرتے۔ہم دونوں بہت بے تکلفی سے باتیں
کرتے۔عمر میں پانچ سال کا فرق ہوکر بھی ہم دونوں برابر کے دوستوں کی طرح بات چیت
کرتے۔عمرآباد سے چھٹیوں میں جب بھی ہاسن آتے مجھ سے ملنے میری دوکان ضرور ہی آتے۔
ان سے رشتے داری(میری بھانجی کے مامو سسرے) ہونے کے بعد میں اپنی بے تکلفی کو طاق
پر رکھ کر گفتگو کرتا۔ مگر گفتگو کے دوران بے تکلفی طاق سے گر گر جاتی تھی۔
پندرہ دن قبل میری زاہد صاحب کے ساتھ فون پر خوب گفتگو ہوئی اور ہم گھنٹوں باتیں
کرتے رہے،ہر معاملے پر گفتگو کی۔
ملنسار، خوش اخلاق، ہمیشہ مسکرانے والے ہمارا رفیق زاہد
عمری کو اللہ نے اپنے پاس بلالیا۔اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن ۔
موصوف کا گھرانا میرے والد کے عقیدت مندوں سے رہا ہے۔
زاہد عمری میرے گھر بھی بے تکلفی سے آتے رہے ہیں۔جماعت
کے کاموں کو پسند کرتے تھے۔لوگوں سے علمی گفتگو کرتے ۔جماعت سے اختلاف رکھنے والوں
سے کرید تے اور اسکی وجہ معلوم کرکے انہیں اصل معاملے سے واقف کراتے پھر ان کے حال
پر چھوڑ دیتے۔
ہمارے مرنے والوں میں ہمارے لئے سبق ہے،دنیا کو نفع یا
نقصان پہنچانے والا سب کچھ ہمارا اپنا کردار ہے،اکثر ہم غلطی کر جاتے ہیں ہم اپنے
کردار کو صحیح کرنے کے بجائے ساری توجہ نماز روزے کو صحیح کرنے میں لگا دیتے
ہیں،جس سے نہ کردار صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی ہماری عبادتیں۔ہمیں اپنے آپ کو ایسا
بنانا چاہیے کہ ہمارے رشتہ دار ہمارے عزیز و اقارب ہمارے بیوی بچے ہمارے پڑوس
ہمارے خاندان والے ہمارے گاہک ہمارے دکاندار سب ہمارے کردار اور اخلاق کے قائل ہو
جائیں۔ہم اپنی عبادتوں سے زیادہ اپنے کردار کو زیادہ سے زیادہ نکھارنے کی
کوشش کریں،ہمارے کردار اور اخلاق کو ٹھیک کرنے میں ہماری عبادتیں ہمارے لئے مددگار
ثابت ہوں۔
"میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی
تو زمیں سے آنے لگی صدا"
"تیرا دل تو ہے صنم آشنا
تجھے کیا ملے گا نماز میں"
اللہ تعالئ زاہد صاحب کے اعمال کو ان کے کردار کو ان کی
خوش اخلاقی کو ان کی ملنساری کو شرف قبولیت بخشے،ان کے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو
معاف فرمائے ان کی تربیت کی ہوئی اولاد کے عمل سے ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ان
کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔آمین۔
عبدالعلی ہاسن
21-08-2022


