1) تم سب کو معلوم ہوگا کہ اِس نبوت کے لیے
اُس زمانے میں عربی قوم سے زیادہ موضوع کوئی قوم نہ تھی۔
2) مگر ان کے ساتھ یہ قابلیت موجود تھی کہ اگر
کوئی زبردست انسان ان کی اصلاح کر دے اور اس کی تعلیم کے اثر سے وہ کسی اعلی درجے
کے مقصد کو لے کر اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کو زیر و زبر کر ڈالیں
3) یکایک اللہ تعالی کی نظر عنایت اس پر ہوتی
ہے۔ اور وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے
4) اس زمانے کی اونچی سوسائٹی کا آدمی بھی
موجودہ زمانے کے ایک مزدور کے بنسبت کم شائستہ تھا۔
5) حتی کہ انسان خود اس قدر ذلیل سمجھتا تھا
کہ کسی انسان کا خدا رسیدہ ہونا، یا کسی خدا رسیدہ کا انسان ہونا، اس کے تصور کی
رسائی سے بہت دور تھا۔
مقامِ بعثت کا انتخاب 90
پھر
اس زمانے کی تاریخ پڑھو۔ تم سب کو معلوم ہوگا کہ اِس نبوت کے لیے اُس زمانے میں
عربی قوم سے زیادہ موضوع کوئی قوم نہ تھی۔ دوسری بڑی بڑی قومیں اپنا اپنا زور دکھا
کر گویا بے دم ہو چکی تھیں۔ عربی قوم تازہ دم تھی۔ تمدّن کی ترقی سے دوسری قوموں
کی عادتیں بگڑ چکی تھیں اور عرب قوم میں کوئی ایسا تمدن نہیں تھا جو اس کو آرام
طلب، عیش پسند اور رزیل بنا دیتا۔ چھٹی صدی عیسوی کے عرب اس زمانے کی متمدن قوموں
کے برے اثرات سے بالکل پاک تھے۔ ان میں وہ تمام انسانی خوبیاں موجود تھیں جو ایک
ایسی قوم میں ہو سکتی ہیں جن کو تمدن کے ہوا نہ لگی ہو، وہ بہادر تھے، بے خوف تھے،
فیاض تھے، عہد کے پابند تھے، آزاد خیال اور آزادی کو پسند کرنے والے تھے۔ کسی قوم
کے غلام نہ تھے، اپنی عزت کے لیے جان دے دینا ان کے لیے آسان تھا۔ نہایت سادہ
زندگی بسر کرتے تھے اور عیش و عشرت سے بیگانہ تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں بہت
سی برائیاں بھی تھیں، کیونکہ ڈھائی ہزار برس سے ان کے ہاں کوئی پیغمبر نہ آیا تھا
نہ کوئی ایسا رہنما پیدا ہوا تھا جو ان کے اخلاق کو درست کرتا اور انہیں تہذیب
سکھاتا۔ صدیوں تک ریگستان میں آزادی کی زندگی بسر کرنے کے سبب سے ان میں
جہالت پھیل گئی تھی۔ اور وہ اپنی جہالت میں اس قدر سخت ہو گئے تھے کہ ان کو آدمی
بنانا کسی معمولی انسان کے بس کا کام نہیں تھا۔ مگر ان کے ساتھ یہ قابلیت موجود
تھی کہ اگر کوئی زبردست انسان ان کی اصلاح کر دے اور اس کی تعلیم کے اثر سے وہ کسی
اعلی درجے کے مقصد کو لے کر اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کو زیر و زبر کر ڈالیں۔ پیغمبر
عالم کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے ایسی ہی جوان اور طاقتور قوم کی ضرورت تھی۔
جہالت زدہ قوم کے لیے بہترین رہنما
91
ایک
قوم صدیوں سے سخت جہالت، پستی، اور بدحالی میں مبتلا چلی آتی ہے۔ یکایک اللہ تعالی
کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے، اور
اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیے خود اپنا کلام اس رہنما پر نازل کرتا ہے،
تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو۔ جاہلانہ اوہام کے چکر سے آگاہ ہوکر زندگی کا صحیح راستہ
اختیار کرے۔ مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائل سردار، اس رہنما کے
پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا
دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں ان کی عداوت و شرارت بڑھتی چلی جاتی
ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے قتل کر دینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں اللہ تعالی کا
ارشاد ہے کہ کیا تمہاری نالائقی کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں؟ اس
درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں؟ اور تمہیں اس پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں
سے گرے ہوئے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے؟ تم
نے کچھ سوچا بھی کہ خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامنے آجانے کے بعد باطل پر
اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔
14 صدیوں پہلے کی دنیا 93
انسان
اور انسان کے درمیان تبادلہ خیالات کے وسائل کس قدر کم تھے۔ قوموں اور ملکوں کے
درمیان تعلق کے ذرائع کتنے محدود تھے۔ انسان کی معلومات کس قدر کم تھیں۔ اس
کے خیالات کس قدر ناقص تھے۔ اس پر وہم اور توحش کا کس قدر غلبہ تھا۔ جہالت کے
اندھیرے میں علم کی روشنی کتنی دھندلی تھی۔ اور اس اندھیرے کو ڈھکیل ڈھکیل کر کتنی
دقتوں کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ دنیا میں نہ تار تھا، نہ ٹیلیفون تھا، نہ ریڈیو
تھا، نہ ریل اور ہوائی جہاز، نہ مطابع نہ اشاعت خانے، نہ مدرسوں اور کالجوں کی
کثرت تھی، نہ اخبارات اور رسالے شائع ہوتے تھے، نہ کتابیں کثرت سے لکھی جاتی
تھیں، نہ کثرت سے ان کی اشاعت ہوتی تھی۔ اس زمانے کے ایک عالم کی معلومات
بعض حیثیت سے موجودہ زمانے کے ایک عام آدمی کے بنسبت کم تھیں۔ اس زمانے کی
اونچی سوسائٹی کا آدمی بھی موجودہ زمانے کے ایک مزدور کے بنسبت کم شائستہ تھا۔ اس
زمانے کا ایک روشن خیال آدمی بھی آج کل کے تاریک خیال آدمی سے زیادہ تاریک خیال
تھا۔ جو باتیں آج ہر کس و ناکس کو معلوم ہے وہ اس زمانے میں برسوں کی محنت اور
تلاش اور تحقیق کے بعد بمشکل معلوم ہو سکتی تھیں۔ جو معلومات آج روشنی کی
طرح فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر بچے کو ہوش سنبھالتے ہی حاصل ہو جاتی ہیں، ان
کے لیے اس زمانے میں سینکڑوں میل کے سفر کیے جاتے تھے۔ اور عمریں اس کی جستجو میں
بیت جاتی تھیں۔ جن باتوں کو آج اوہام اور خرافات سمجھا جاتا ہے وہ اس زمانے
کے حقائق تھے۔ جن افعال کو آج نہ شائستہ اور وحشیانہ کہا جاتا ہے وہ اس زمانے کے
عام معمولات تھے۔ جن طریقوں سے آج انسان کا ضمیر نفرت کرتا ہے وہ اس زمانے کے
اخلاقیات میں نہ صرف جائز تھے بلکہ کوئی شخص یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ ان کے
خلاف بھی کوئی طریقہ ہو سکتا ہے۔ انسان کی عجائب پرستی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ وہ
کسی چیز میں اس وقت تک کوئی صداقت کوئی بزرگی تسلیم ہی نہ کر سکتا تھا جب تک وہ
فوق الفطرت نہ ہو۔ حتی کہ انسان خود اس قدر ذلیل سمجھتا تھا کہ کسی انسان کا خدا
رسیدہ ہونا، یا کسی خدا رسیدہ کا انسان ہونا، اس کے تصور کی رسائی سے بہت دور تھا۔

