Seerat Serwar e Alam16


 عرب خود بھی ایک طرف مال خرید کر لیجاتے اور دوسری طرف اسے فروخت بھی کرتے تھے۔

2.    1700 برس قبلِ مسیح میں بنی اسماعیل کے تجارتی قافلوں کی سرگرمیوں پر توراة شہادت دیتی ہے۔

3.    عرب میں شام اور مصر سے غلّہ اور شراب درآمد کرنے کا کام زیادہ تر یہی یہودی کرتے تھے۔

4.    مدینے کےانصار اور شام کے غسّانی فرماں روا ایک ہی نسل سے تھے اور ان کے درمیان پیہم تعلقات قائم رہے۔

5.    حیرہ کے امراء سے قریش والوں کا بہت میل جول تھا۔

6.    ان غلاموں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے مہذب لوگ بھی ہوتے تھے اور صنعت پیشہ اور تجارت پیشہ لوگ بھی۔

7.    عرب کسی زمانے میں بھی نہ تو خوراک کے معاملے میں خود کفیل رہا ہے اور نہ وہاں ایسی صنعتوں کو فروغ نصیب ہوا ہے جن سے تمام ضرورت کے سامان ملک ہی میں فراہم ہو جاتے ہوں۔ 

مختلف ممالک سے عربوں کے وسیع رابطے 657

زمانہٓ قدیم کی تاریخ سے متعلق جو مواد آج دنیا میں موجود ہے۔ اس سے یہ بات پوری طرح ثابت ہے کہ اس زمانے میں چین، ہندوستان اور دوسرے مشرقی ممالک کی اور اسی طرح مشرقی افریقہ کی

جتنی تجارت بھی مصر، شام، ایشیاء کوچک، یونان اور روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ سب عربوں کے واسطے سے ہوتی تھی۔ اس تجارت کے تین بڑے راستے تھے۔ ایک ایران سے خشکی کا راستہ جو عراق سے شام ہوتا ہوا جاتا تھا۔ دوسرا خلیج فارس کا بحری راستہ جس سے تمام تجارتی سامان عرب کے مشرقی سواحل پر اترتا اور دومتہ الجندل یا  تدمر پالمیرا Palmyra ہوتا ہوا آگے جاتا تھا. تیسرا بحرے ہند کا راستہ جس سے آنے جانے والے تمام اموالِ تجارت حضرموت اور یمن سے گزرتے تھے۔ یہ تینوں راستے وہ تھے جن پر عرب آباد تھے۔ عرب خود بھی ایک طرف مال خرید کر لیجاتے اور دوسری طرف اسے فروخت بھی کرتے تھے۔ حمل و نقل کا کاروبار carrying Trade بھی کرتے تھے۔ اور اپنے علاقے سے گزرنے والے قافلوں سے بھاری ٹیکس لیکر انہیں بحفاظت گزارنے کا ذمہ بھی لیتے تھے۔ ان تینوں صورتوں سے ہمیشہ بین الاقوامی تجارت کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا۔ 2700 برس قبلِ مسیح سے یمن اور مصر کے تجارتی تعلقات کا ثبوت ملتا ہے۔1700 برس قبلِ مسیح میں بنی اسماعیل کے تجارتی قافلوں کی سرگرمیوں پر توراة شہادت دیتی ہے۔ شمالی حجاز میں مدین اور دِدان کی تجارت ڈیڑھ ہزار برس قبلِ مسیح اور اس کے بعد کئی صدی تک چلتی نظر آتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ داددؑ کے زمانے (ایک ہزار قبلِ مسیح)سے یمن کی سبائی قبائل اور ان کے بعد حمیرے قبیلے ابتدائی مسیحی صدیوں تک مسلسل تجارتی نقل و حرکت کرتے رہے ہیں۔ مسیحؑ سے لگ بھگ زمانے میں فلسطین کے یہودی عرب آکر خیبر وادی القریٰ تیماء اور تبوک میں آباد ہوئے اور ان کے دائمی تعلقات مذہبی اور ثقافتی بھی اور تجارتی بھی، شام و فلسطین اور یہودیوں کے ساتھ برقرار رہے۔ عرب میں شام اور مصر سے غلّہ اور شراب درآمد کرنے کا کام زیادہ تر یہی یہودی کرتے تھے۔ پانچویں صدی سے قریش نے عرب کی ببیرونی تجارت میں غالب غالب حصّہ لینا شروع کیا اور نبیﷺکے عہد تک ایک طرف یمن اور حبش سے، دوسری طرف عراق سے، اور تیسری طرف مصر و شام سے ان کے نہایت وسیع تجارتی تعلقات تھے۔ مشرقی عرب میں ایران کی جتنی تجارت یمن کے ساتھ تھی اس کا بہت بڑا حصّہ حیرہ سے یمامہ موجودہ (ریاض) اور پھر بنی تمیم کے علاقے سے گزرتا ہوا نجران اور یمن جاتا تھا۔

سیاسی اور ثقافتی رابطے 658
ان تجارتی تعلقات کے علاوہ سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے بھی عرب کے لوگوں کا اپنے گردوپیش کی مہذب دنیا سے گہرا رابطہ تھا۔ چھٹی صدی قبلِ مسیح میں شمالی حجاز کے مقام تیاماء کو بابل کے بادشاہ نیبونیدس نے اپنا گرمائی دارالسلطنت بنایا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ بابل میں جو معاشی قوانین اور طریقے رائج تھے ان سے حجاز کے لوگ بے خبر رہ گئے ہوں۔ تیسری صدی قبلِ مسیح سے نبیﷺکے عہد تک پہلے پطرا کی نبطی ریاست، پھر تدمر کی شامی ریاست اور اس کے بعد حیرہ اور غسّان کی عربی ریاستیں عراق سے مصر کے حدود تک اور حجاز و نجد کے حدود سے الجزایر اور شام کے حدود تک مسلسل قائم رہیں۔ ان ریاستوں کا ایک طرف یونان و روم سے اور دوسری طرف ایران سے نہایت گہرا سیاسی، تمدنی، تہذیبی اور معاشی تعلق رہا ہے۔ پھر نسلی رشتوں کی بنا پر اندرون عرب کے قبائل بھی ان کے ساتھ وسیع تعلقات رکھتے تھے۔ مدینے کےانصار اور شام کے غسّانی فرماں روا ایک ہی نسل سے تھے اور ان کے درمیان پیہم تعلقات قائم رہے۔ نبیﷺ کے عہد میں خود آپ کے خاص شاعر حضرت حسّان بن ثابت غسّانی امراء کے یہاں آتے جاتے تھے۔ حیرہ کے امراء سے قریش والوں کا بہت میل جول تھا۔ حتیٰ کے قریش کے لوگوں نے لکھنا پڑھنا بھی انہی سے سیکھا اور حیرہ ہی سے وہ رسم الخط انہیں ملا جو بعد میں خطِ کوفی کے نام سے مشہور ہوا۔

مزید برآں عرب کے ہر حصے میں شیوخ، اشراف اور بڑے بڑے تاجروں کے پاس رومی یونانی اور ایرانی لونڈیوں اور غلاموں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ایران اور روم کی لڑائیوں میں دونوں طرف کے جو جنگی قیدی غلام بنائے جاتے تھے ان میں سے زائد از ضرورت تعداد کو کھلے بازار میں فروخت کر دیا جاتا تھا، اور عرب اس مال کی بڑی منڈیوں میں سے ایک تھا۔ ان غلاموں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے مہذب لوگ بھی ہوتے تھے اور صنعت پیشہ اور تجارت پیشہ لوگ بھی۔ عرب کے شیوخ اور تجّار ان سے بہت کام لیتے تھے۔ مکہ طائف اسرب اور دوسرے مرکزوں میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور یہ کاریگروں کی حیثیت سے اپنے آقاؤں کی قیمتی خدمات بجا لاتے تھے۔



 
مخصوص معاشی صورتِ حال 658
اس کے ساتھ عرب کی معاشی تاریخ کا ایک اور پہلو بھی نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عرب کسی زمانے میں بھی نہ تو خوراک کے معاملے میں خود کفیل رہا ہے اور نہ وہاں ایسی صنعتوں کو فروغ نصیب ہوا ہے جن سے تمام ضرورت کے سامان ملک ہی میں فراہم ہو جاتے ہوں۔ اس ملک میں ہمیشہ اشیائے خوردنی بھی باہر سے در آمد ہوتی رہی ہیں۔ اور ہر طرح کے مصنوعات بھی۔ حتی کہ پہننے کے کپڑے تک زیادہ تر باہر ہی سے آتے رہے ہیں۔ نبیﷺ کے قریب کے عہد میں یہ در آمدی تجارت زیادہ تر دو گروہوں کے ہاتھ میں تھی ایک قریش اور بنی ثقیف، دوسرے یہود۔ لیکن یہ لوگ مال دار آمد کر کے صرف تھوک فروشی ہی کرتے تھے۔ اندرون ملک کی چھوٹی چھوٹی بستیاں اور قبائلی ٹھکانوں میں خردہ فروشی کرنا ان کا کام نہ تھا، نہ ہو سکتا تھا، اور نہ قبائل اس بات کو گوارا کر سکتے تھے کہ سارے تجارتی فائدے یہی لوگ لوٹ لے جائیں اور ان کے اپنے آدمیوں کو اس اجارہ داری میں گھسنے کا کسی طرف سے راستہ نہ ملے۔ اس لیے تھوک فروش کی حیثیت سے یہ لوگ اندرون ملک کے خردہ فروش تاجروں کے ہاتھ لاکھوں روپے کا مال فروخت کرتے تھے اور اس کا ایک معتدبہ حصہ ادھار فروخت ہوتا تھا.

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.