غلبہ دین کی پیشن گوئی-379
1. عرب
کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سرزمین ایک قانون اور ضابطے کے تابع ہو گئی
2. مشرکین
اور اہل کتاب اپنے جھوٹے کلمے بلند رکھنے کے لیے آخری دم تک ایڑی چوٹی کا زور لگا
چکے تھے
3. اس
کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کی ہوئی تحریک اس طاقت کے ساتھ اٹھی کے
ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر وہ چھا گئی
4. یہاں
ایک خطرناک شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نامی ہے جو لوگوں پر ایسا جادو کرتا ہے
کہ باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے۔
5. کفار
مکہ کا پروپیگینڈا جتنا جتنا بڑھتا چلا گیا، لوگوں میں یہ جستجو بھی بڑھتی چلی
گئی۔
6. معاشرت
میں ظلم اور معاملات میں فساد عام تھا زور آوروں کی زیادتیوں سے بے زور پس رہے
تھے۔ لڑکیاں زندہ دفن کی جا رہی تھیں۔
7. جس
فردِ فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں
8. مدینہ
طیبہ کی اسلامی ریاست خدا پرستی و خدا ترسی، زہد و تقوی، طہارت و اخلاق، حسنِ
معاشرت، عدل و انصاف، انسانی مساوات، مالداروں کی فیاضی، غریبوں کی خبرگیری، عہد و
پیمان کی پاسداری اور معاملات میں راست بازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو
لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا رہا تھا
9. ۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی
موجود ہو اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں با آواز بلند محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو، نمازوں میں حضور پر درود نہ بھیجا جا
رہا ہو، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جا رہا ہو، اور سال کے 12 مہینوں
میں سے کوئی دن اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین
میں کسی نہ کسی جگہ حضور کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو
"اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔"
یعنی
اگرچہ دینے میں کچھ دیر تو لگے گی، لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب تم پر تمہارے رب کی
عطا و بخشش کی وہ بارش ہوگی کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ یہ وعدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی زندگی ہی میں اس طرح پورا ہوا کہ سارا ملک عرب جنوب کے سواحل سے لے کر شمال میں
سلطنت روم کی شامی اور سلطنت فارس کی عراقی سرحدوں تک، اور مشرق میں خلیج فارس سے
لے کر مغرب میں بحر احمر تک آپؐ کے زیر نگیں ہو گیا۔ عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ
یہ سرزمین ایک قانون اور ضابطے کے تابع ہو گئی، جو طاقت بھی اس سے ٹکرائی وہ پاش
پاش ہو کر رہ گئی کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے وہ پورا ملک گونج اٹھا
جس میں مشرکین اور اہل کتاب اپنے جھوٹے کلمے بلند رکھنے کے لیے آخری دم تک ایڑی
چوٹی کا زور لگا چکے تھے، لوگوں کے صرف سر ہی اطاعت میں نہیں جھک گئے بلکہ ان کے
دل بھی مسخر ہو گئے۔ عقائد، اخلاق اور اعمال میں ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا۔
پوری تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ ایک جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم صرف 23 سال
کے اندر اتنی بدل گئی ہو۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کی ہوئی
تحریک اس طاقت کے ساتھ اٹھی کے ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر وہ چھا
گئی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پھیل گئے۔ یہ کچھ تو اللہ تعالی نے
اپنے رسولؐ کو دنیا میں دیا اور آخرت میں جو کچھ دے گا اس کی عظمت کا تصور بھی
کوئی نہیں کر سکتا۔
بوجھ اتارنے کا مفہوم 381
پس
درحقیقت اس آیت میں وزر کے صحیح معنی بوجھ کے ہیں اور اس سے مراد رنج و غم اور فکر
و پریشانی کا بوجھ ہے وہ جو اپنی قوم کی جہالت و جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپؐ کی
حساس طبیعت پر پڑ رہا تھا۔ آپؐ کے سامنے بت پوجے جا رہے تھے۔ شرک اور مشرکانہ
اوہام و رسوم کا بازار گرم تھا۔ اخلاق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی
تھی۔ معاشرت میں ظلم اور معاملات میں فساد عام تھا زور آوروں کی زیادتیوں سے بے
زور پس رہے تھے۔ لڑکیاں زندہ دفن کی جا رہی تھیں۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے
تھے اور بعض اوقات سو سو برس تک انتقامی لڑائیوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ کسی کی
جان، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط جتھا نہ ہو۔ یہ
حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کڑھتے تھے مگر اس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی
صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر نہ آتی تھی۔ یہی فکر آپؐ کی کمر توڑے ڈال رہی
تھی۔ جس کا بار گراں اللہ تعالی نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپؐ کے اوپر سے اتار
دیا اور نبوت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپؐ کو معلوم ہو گیا کہ توحید اور آخرت اور
رسالت پر ایمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا
سکتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی
کی اس رہنمائی نے آپؐ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپؐ پوری طرح مطمئن ہو
گئے کہ اس ذریعے سے آپؐ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو ان خرابیوں سے نکال
سکتے ہیں جن میں اس وقت عرب سے باہر کی بھی ساری دنیا مبتلاء تھی۔
رفعِ ذکر 382
ورفعنا
لک ذکرک
اور تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کردیا۔
یہ
بات اس زمانے میں فرمائی گئی تھی کہ جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس
فردِ فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں ان
کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہوگا اور کیسی ناموری ان کو حاصل ہوگی۔ لیکن اللہ
تعالی نے ان حالات میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی اور پھر
عجیب طریقے سے اس کو پورا کیا۔ سب سے پہلے آپؐ کے رفع ذکر کا کام اس نے خود آپ کے
دشمنوں سے لیا۔ کفار مکہ نے آپؐ کو زک دینے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ہیں ان میں
سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ کھچ کھچ کر ان کے شہر میں آتے
تھے، اس زمانے میں کفار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو
خبردار کرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نامی ہے جو لوگوں
پر ایسا جادو کرتا ہے کہ باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے۔
اس لیے ذرا اس سے بچ کر رہنا۔ یہی باتیں وہ ان سب لوگوں سے بھی کہتے تھے جو حج کے
سوا دوسرے دنوں میں زیارت یا کسی کاروبار کے سلسلے میں مکہ آتے تھے۔ اس طرح اگرچہ
ہے وہ حضورؐ کو بدنام کر رہے تھے، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے
میں آپؐ کا نام پہنچ گیا اور مکہ کے گوشہ گمنامی سے نکال کر خود دشمنوں نے آپؐ کو
تمام ملک کے قبائل سے متعارف کرا دیا۔ اس کے بعد یہ بلکل فطری امر تھا کہ لوگ یہ
معلوم کریں کہ وہ شخص ہے کون؟ کیا کہتا ہے؟ کیسا آدمی ہے؟ اس کے "جادو"
سے متاثر ہونے والے کون لوگ ہیں اور ان پر اس کے "جادو" کا آخر کیا اثر
پڑا ہے؟ کفار مکہ کا پروپیگینڈا جتنا جتنا بڑھتا چلا گیا، لوگوں میں یہ جستجو بھی
بڑھتی چلی گئی۔ پھر جب اس جستجو کے نتیجے میں لوگوں کو آپؐ کے اخلاق اور آپؐ کی
سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا، جب لوگوں نے قران سنا اور انہیں پتہ چلا کہ وہ
تعلیمات کیا ہیں جو آپؐ پیش فرما رہے ہیں، اور جب دیکھنے والوں نے یہ دیکھا کہ جس
چیز کو جادو کہا جا رہا ہے اس سے متاثر ہونے والوں کی زندگی عرب کے عام لوگوں کی
زندگیوں سے کس قدر مختلف ہو گئی ہیں، تو وہی بدنامی نیک نامی سے بدلنی شروع ہو
گئی، حتی کہ ہجرت کا زمانہ آنے تک نوبت یہ پہنچ گئی کہ دور و نزدیک کے عرب قبائل
میں شاید ہی کوئی قبیلہ ایسا رہ گیا ہو جس میں کسی نہ کسی شخص یا کنبے نے اسلام
قبول نہ کر لیا ہو، اور جس میں کچھ نہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
اور آپؐ کی دعوت سے ہمدردی اور دلچسپی رکھنے والے پیدا نہ ہو گئے ہوں۔ یہ حضورؐ کے
رفع ذکر کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں ایک
طرف منافقین، یہود اور تمام عرب کے اکابر مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
بدنام کرنے میں سرگرم تھے، اور دوسری طرف مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست خدا پرستی و
خدا ترسی، زہد و تقوی، طہارت و اخلاق، حسنِ معاشرت، عدل و انصاف، انسانی مساوات،
مالداروں کی فیاضی، غریبوں کی خبرگیری، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں
راست بازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا
رہا تھا۔ دشمنوں نے جنگ کے ذریعے سے حضورؐ کے اس بڑھتے ہوئے اثر کو مٹانے کی کوشش
کی، مگر آپؐ کی قیادت میں اہل ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی اس نے اپنے نظم و
ضبط، اپنی شجاعت، اپنی موت سے بے خوفی، اور حالت جنگ تک میں اخلاقی حدود کی پابندی
سے اپنی برتری اس طرح ثابت کر دی کہ سارے عرب نے ان کا لوہا مان لیا۔ 10 سال کے
اندر حضور کا رفع ذکر اس طرح ہوا کہ وہی ملک جس میں آپؐ کو بدنام کرنے کے لیے
مخالفین نے اپنا سارا زور لگا دیا تھا، اس کا گوشہ گوشہ اشہد ان محمد رسول اللہ کی
صدا سے گونج اٹھا۔ پھر تیسرے مرحلے کا افتتاح خلافت راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ کا
نام مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتا ہی جا
رہا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں
ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود ہو اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں با آواز
بلند محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو، نمازوں
میں حضور پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جا
رہا ہو، اور سال کے 12 مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت
ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضور کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔ یہ
قران کی صداقت کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ
تعالی نے فرمایا کہ ذکر اس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ رفع
ذکر اس شان سے اور اتنے بڑے پیمانے پر ہوگا۔ حدیث میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیلؑ میرے پاس آے اور مجھ سے
کہا میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رفع ذکر کیا؟ میں نے
عرض کیا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انہوں نے کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جب میرا
ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جائے گا۔ (ابن جریر، ابن ابی
حاتم، مسند ابو یعلی، ابن المنظر، ابن حبان، ابن مردویہ، ابو نعیم) ۔اس بات کی
پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی۔
حضرت موسیٰ کا سفر مجمع البحرین 429
"ذرا ان کو وہ قصّہ سناؤ جو موسی کو پیش آیا تھا جبکہ موسؑیٰ
نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے
سنگم پر نہ پہنچ جاؤں ورنہ میں ایک زمانہ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔"
اس
مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک اہم حقیقت پر متنبہ
کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس
سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے، کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالی کی وہ مصلحتیں
نہیں ہوتی جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں
کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا، نافرمانوں پر انعاموں کی بارش اور فرمانبرداروں پر
مصائب کا ہجوم، بدکاروں کا عیش اور نیکوکاروں کی بدحالی، یہ وہ مناظر ہیں جوآئے دن
انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کی کنہ کو نہیں سمجھتے،
ان سے عام طور پر ذہنوں میں الجھنیں، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں۔ کافر
اور ظالم اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دنیا اندھیر نگری ہے، کوئی اس کا راجہ
نہیں، اور ہے تو چوپٹ ہے۔ یا جس کا جو جی چاہے کرتا رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں
کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں۔ا یسے ہی حالات میں اللہ تعالی نے
حضرت موسؑیٰ علیہ السلام کو اپنا کارخانہ مشیت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک
دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور
کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔
۔
