1. حضرت صالحؑ کی پیروی سے ان کا انکار تین
وجوہ سے تھا۔ ایک یہ کہ وہ بشر ہیں،
2. "ننّار" محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ
ملک کا سب سے بڑا زمیندار، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار
3. دنیا کے تمام مسلمان، عیسائی اور یہودی اس
خلیل رب العالمین کو بالاتفاق اپنا پیشوا مانتے ہیں۔
4. اس شخص کا معاملہ تو بہت ہلکا ہے جو محض
نفس کی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو جاتا ہو مگر حلال
کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہو۔
5. پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں کوئی
شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ راستہ تو ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔
6. مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اٹھا کر اسے
اپنے گھر لے گیا۔ اسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اس کی ذین
اور مال تجارت سمیت اڑا دیا۔
7. بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے
جاتے تو برسر عام لوٹ لیے جاتے اور ان کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا جاتا۔
8. ایک لوطؑ کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو
ٹوکنے والی نہ تھی۔
ابتدائیہ 439
نوع انسانی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ دنیا کو محض
ایک تماشا گاہ، محض ایک خوان یغمہ، محض ایک عیش کدہ سمجھ کر جینے والی، اور
انبیاء کی بتائی ہوئی حقیقت سے منہ موڑ کر باطل نظریات پر کام کرنے والی قومیں پے
درپے کس انجام سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔
سرکشی کے تین وجوہ 455
حضرت صالحؑ کی پیروی سے ان کا انکار تین وجوہ سے تھا۔
ایک یہ کہ وہ بشر ہیں، انسانیت سے بالاتر نہیں ہیں کہ ہم ان کی بڑائی مان لیں۔
دوسرے یہ کہ وہ ہماری ہی قوم کے ایک فرد ہیں۔ ہم پر ان کی فضیلت کی کوئی وجہ نہیں۔
تیسرے یہ کہ اکیلے ہیں ہماری عام آدمیوں میں سے ایک آدمی ہے، کوئی بڑے سردار نہیں
ہیں جس کے ساتھ کوئی بڑا جتھا ہو، لاؤ لشکر ہو، خدم وحشم ہو، اور اس بنا پر ہم ان
کی بڑائی تسلیم کریں۔ وہ چاہتے تھے کہ نبی کوئی فوق البشر ہستی ہو، یا وہ اگر
انسان ہی ہو تو ہمارے اپنے قوم اور ملک میں پیدا نہ ہوا ہو، بلکہ کہیں اوپر سے اتر
کرآئے یا باہر سے بھیجا جائے، اور اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم اْسے کوئی رئیس
ہونا چاہیے جس کی غیر معمولی شان و شوکت کی وجہ سے یہ مان لیا جائے کہ رہنمائی کے
لیے خدا کی نظر انتخاب اس پر پڑی ہے۔
نناّر دیوتا کا مقام 470
"ننّار" محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ
ملک کا سب سے بڑا زمیندار، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار، اور ملک کی
سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا۔ بکثرت باغ، مکانات، اور زمینیں اس مندر کے
لیے وقف تھیں۔ اس جائیداد کی آمدنی کے علاوہ کسان، زمیندار، تجّار، سب ہر قسم کے
غلّے، دودھ، سونا، کپڑا اور دوسری چیزیں لا کر مندر میں نذر بھی کرتے تھے۔ تجارتی
کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت
میں پجاری ہی انجام دیتے تھے۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی مندر ہی میں تھی۔
پجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے "خدا" کے فیصلے سمجھے جاتے تھے ۔
خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننّار ہی سے ماخوذ تھی۔ اصل بادشاہ ننّار تھا اور
فرمان روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبودوں
میں شامل ہو جاتا تھا اور خداؤں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی۔
نارِ نمرود اور گلزار خلیلؑ 472
بابل کے وہ حکمران اور پنڈت اور پروہت جنہوں نے ابراہیم
علیہ السلام کی دعوت کو نیچا دکھانا چاہا تھا اور اس کے وہ مشرک باشندے جنہوں نے
آنکھیں بند کر کے ان ظالموں کی پیروی کی تھی، وہ تو دنیا سے مٹ گئے اور ایسے مٹے
کہ آج دنیا میں کہیں ان کا نام و نشان تک باقی نہیں، مگر وہ شخص جسے اللہ کا کلمہ
بلند کرنے کے جرم میں ان لوگوں نے جلا کر خاک کر دینا چاہا تھا، اور جسے آخر کار
بے سرو سامانی کے عالم میں وطن سے نکل جانا پڑا تھا، اس کو اللہ تعالی نے یہ
سرفرازی عطا فرمائی کہ چار ہزار برس سے دنیا میں اس کا نام روشن ہے اور قیامت تک
رہے گا۔ دنیا کے تمام مسلمان، عیسائی اور یہودی اس خلیل رب العالمین کو بالاتفاق
اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ دنیا کو ان 40 صدیوں میں جو کچھ بھی ہدایت کی روشنی میسر
آئی ہے اسی ایک انسان اور اس کی پاکیزہ اولاد کی بدولت میسر آئی ہے۔ آخرت میں جو
اجر عظیم اس کو ملے گا وہ تو ملے گا ہی، مگر اس دنیا میں بھی اس
نے وہ عزت پائی جو حصول دنیا کے پیچھے جان کھپانے والوں میں سے کسی کو آج تک نصیب
نہیں ہوئی۔
تلمود کا بیان 480
یہ فقرہ (ولادتخزون فی ضیفی) ان لوگوں کے نفس کی پوری
تصویر کھینچ دیتا ہے کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ بات صرف اس حد تک ہی
نہیں تھی کہ وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی خلاف فطرت راہ پر چل
پڑے تھے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب
اسی گندگی راہ ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اس گندگی ہی کی رہ گئی تھی اور وہ
فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ
راستہ تو ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی
مرتبہ ہے جس سے فروتر کسی مرتبے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس شخص کا معاملہ تو
بہت ہلکا ہے جو محض نفس کی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو جاتا ہو مگر حلال
کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی سدھر بھی
سکتا ہے، اور نہ سدھرے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بگڑا
ہوا انسان ہے۔ جس شخص کی ساری رغبت سمجھے کہ حلال اس کے لیے ہے ہی نہیں تو اس کا
شمار انسانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔وہ دراصل ایک گندا کیڑا ہے وہ غلاظت میں پرورش
پاتا ہے اور یہ بات سے اس کے مزاج کو کوئی مناسبت نہی ہوتی۔ ایسے کیڑے اگر کسی صفائی
پسند انسان کے گھر میں پیدا ہو جائیں تو وہ پہلی فرصت میں فینائل ڈال کر ان کے
وجود سے اپنے گھر کو پاک کر دیتا ہے۔ پھر بھلا خدا اپنی زمین پر ان گندے کیڑوں کے
اجتماع کو کب تک گوارا کر سکتا تھا۔
تلمود کا بیان 480
ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جن سے کچھ زیادہ
تفصیل کے ساتھ معلوم ہوگا کہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس میں
لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عیلامی مسافر ان کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ راستے میں شام
ہو گئی ہے اور اسے مجبورا ان کے شہر صدوم میں ٹھیرنا پڑا۔ اس کے ساتھ اپنا زاد راہ
تھا۔ کسی سے اس نے میزبانی کی درخواست نہ کی۔ بس ایک درخت کے نیچے اتر گیا۔ مگر
ایک سدومی اصرار کے ساتھ اٹھا کر اسے اپنے گھر لے گیا۔ اسے اپنے ہاں رکھا اور صبح
ہونے سے پہلے اس کا گدھا اس کی ذین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا۔ اس نے شور مچایا،
مگر کسی نے فریاد نہ سنی، بلکہ بستی کے لوگوں نے اس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اسے
نکال باہر کیا۔
ایک مرتبہ حضرت سارہ (ابراہیمؑ کی بیوی) نے حضرت لوطؑ
کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام الیعزر کو سدوم بھیجا۔ الیعزر
جب شہر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے۔ الیعزر
نے اسے شرم دلائی کہ تم بیکس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو۔ مگر جواب میں سر بازار
الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا۔
ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے ان کے شہر میں آیا اور
کسی نے اسے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرا پڑا تھا کہ
حضرت لوطؑ کی بیٹی نے اسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا۔ اس پر حضرت لوطؑ
اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان حرکتوں کے
ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے۔
اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد فلم ات کا
مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بد
معاملہ تھے۔ مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں
سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے
میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا اور یہ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن
کر دیتے۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسر عام لوٹ لیے جاتے
اور ان کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا جاتا۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا
رکھا تھا جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ
اعلانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوطؑ کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے
والی نہ تھی۔
ابتدائیہ 439
نوع انسانی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ دنیا کو محض
ایک تماشا گاہ، محض ایک خوان یغمہ، محض ایک عیش کدہ سمجھ کر جینے والی، اور
انبیاء کی بتائی ہوئی حقیقت سے منہ موڑ کر باطل نظریات پر کام کرنے والی قومیں پے
درپے کس انجام سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔
سرکشی کے تین وجوہ 455
حضرت صالحؑ کی پیروی سے ان کا انکار تین وجوہ سے تھا۔
ایک یہ کہ وہ بشر ہیں، انسانیت سے بالاتر نہیں ہیں کہ ہم ان کی بڑائی مان لیں۔
دوسرے یہ کہ وہ ہماری ہی قوم کے ایک فرد ہیں۔ ہم پر ان کی فضیلت کی کوئی وجہ نہیں۔
تیسرے یہ کہ اکیلے ہیں ہماری عام آدمیوں میں سے ایک آدمی ہے، کوئی بڑے سردار نہیں
ہیں جس کے ساتھ کوئی بڑا جتھا ہو، لاؤ لشکر ہو، خدم و حشم ہو، اور اس بنا پر ہم ان
کی بڑائی تسلیم کریں۔ وہ چاہتے تھے کہ نبی کوئی فوق البشر ہستی ہو، یا وہ اگر
انسان ہی ہو تو ہمارے اپنے قوم اور ملک میں پیدا نہ ہوا ہو، بلکہ کہیں اوپر سے اتر
کرآئے یا باہر سے بھیجا جائے، اور اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم اْسے کوئی رئیس
ہونا چاہیے جس کی غیر معمولی شان و شوکت کی وجہ سے یہ مان لیا جائے کہ رہنمائی کے
لیے خدا کی نظر انتخاب اس پر پڑی ہے۔
نناّر دیوتا کا مقام 470
"ننّار" محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ
ملک کا سب سے بڑا زمیندار، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار، اور ملک کی
سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا۔ بکثرت باغ، مکانات، اور زمینیں اس مندر کے
لیے وقف تھیں۔ اس جائیداد کی آمدنی کے علاوہ کسان، زمیندار، تجّار، سب ہر قسم کے
غلّے، دودھ، سونا، کپڑا اور دوسری چیزیں لا کر مندر میں نزر بھی کرتے تھے۔ تجارتی
کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت
میں پجاری ہی انجام دیتے تھے۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی مندر ہی میں تھی۔
پجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے "خدا" کے فیصلے سمجھے جاتے تھے ۔
خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننّار ہی سے ماخوذ تھی۔ اصل بادشاہ ننّار تھا اور
فرمان روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبودوں
میں شامل ہو جاتا تھا اور خداؤں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی۔
نارِ نمرود اور گلزار خلیلؑ 472
بابل کے وہ حکمران اور پنڈت اور پروہت جنہوں نے ابراہیم
علیہ السلام کی دعوت کو نیچا دکھانا چاہا تھا اور اس کے وہ مشرک باشندے جنہوں نے
آنکھیں بند کر کے ان ظالموں کی پیروی کی تھی، وہ تو دنیا سے مٹ گئے اور ایسے مٹے
کہ آج دنیا میں کہیں ان کا نام و نشان تک باقی نہیں، مگر وہ شخص جسے اللہ کا کلمہ
بلند کرنے کے جرم میں ان لوگوں نے جلا کر خاک کر دینا چاہا تھا، اور جسے آخر کار
بے سرو سامانی کے عالم میں وطن سے نکل جانا پڑا تھا، اس کو اللہ تعالی نے یہ
سرفرازی عطا فرمائی کہ چار ہزار برس سے دنیا میں اس کا نام روشن ہے اور قیامت تک
رہے گا۔ دنیا کے تمام مسلمان، عیسائی اور یہودی اس خلیل رب العالمین کو بالاتفاق
اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ دنیا کو ان 40 صدیوں میں جو کچھ بھی ہدایت کی روشنی میسر
آئی ہے اسی ایک انسان اور اس کی پاکیزہ اولاد کی بدولت میسر آئی ہے۔ آخرت میں جو
اجر عظیم اس کو ملے گا وہ تو ملے گا ہی، مگر اس دنیا میں بھی اس نے وہ عزت پائی جو
حصول دنیا کے پیچھے جان کھپانے والوں میں سے کسی کو آج تک نصیب نہیں ہوئی۔
تلمود کا بیان 480
یہ فقرہ (ولادتخزون فی ضیفی) ان لوگوں کے نفس کی پوری
تصویر کھینچ دیتا ہے کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ بات صرف اس حد تک ہی
نہیں تھی کہ وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی خلاف فطرت راہ پر چل
پڑے تھے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب
اسی گندگی راہ ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اس گندگی ہی کی رہ گئی تھی اور وہ
فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ
راستہ تو ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی
مرتبہ ہے جس سے فروتر کسی مرتبے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس شخص کا معاملہ تو
بہت ہلکا ہے جو محض نفس کی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو جاتا ہو مگر حلال
کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی سدھر بھی
سکتا ہے، اور نہ سدھرے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بگڑا
ہوا انسان ہے۔ جس شخص کی ساری رغبت سمجھے کہ حلال اس کے لیے ہے ہی نہیں تو اس کا
شمار انسانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔وہ دراصل ایک گندا کیڑا ہے وہ غلاظت میں پرورش
پاتا ہے اور یہ بات سے اس کے مزاج کو کوئی مناسبت نہی ہوتی۔ ایسے کیڑے اگر کسی صفائی
پسند انسان کے گھر میں پیدا ہو جائیں تو وہ پہلی فرصت میں فینائل ڈال کر ان کے
وجود سے اپنے گھر کو پاک کر دیتا ہے۔ پھر بھلا خدا اپنی زمین پر ان گندے کیڑوں کے
اجتماع کو کب تک گوارا کر سکتا تھا۔
تلمود کا بیان 480
ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جن سے کچھ زیادہ
تفصیل کے ساتھ معلوم ہوگا کہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس میں
لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عیلامی مسافر ان کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ راستے میں شام
ہو گئی ہے اور اسے مجبورا ان کے شہر صدوم میں ٹھیرنا پڑا۔ اس کے ساتھ اپنا زاد راہ
تھا۔ کسی سے اس نے میزبانی کی درخواست نہ کی۔ بس ایک درخت کے نیچے اتر گیا۔ مگر
ایک سدومی اصرار کے ساتھ اٹھا کر اسے اپنے گھر لے گیا۔ اسے اپنے ہاں رکھا اور صبح
ہونے سے پہلے اس کا گدھا اس کی ذین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا۔ اس نے شور مچایا،
مگر کسی نے فریاد نہ سنی، بلکہ بستی کے لوگوں نے اس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اسے
نکال باہر کیا۔
ایک مرتبہ حضرت سارہ (ابراہیمؑ کی بیوی) نے حضرت لوطؑ
کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام الیعزر کو سدوم بھیجا۔ الیعزر
جب شہر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے۔ الیعزر
نے اسے شرم دلائی کہ تم بیکس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو۔ مگر جواب میں سر بازار
الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا۔
ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے ان کے شہر میں آیا اور
کسی نے اسے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرا پڑا تھا کہ
حضرت لوطؑ کی بیٹی نے اسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا۔ اس پر حضرت لوطؑ
اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان حرکتوں کے
ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے۔
اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد فلم ات کا
مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بد
معاملہ تھے۔ مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں
سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے
میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا اور یہ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن
کر دیتے۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسر عام لوٹ لیے جاتے
اور ان کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا جاتا۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا
رکھا تھا جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ
اعلانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوطؑ کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے
والی نہ تھی۔
۔
