yousuf islahi(rh)

 

،تمہیں مولانا یوسف اصلاحی صاحب نے  بہت یاد کیا۔اسوقت میری عمر پندرہ برس کی رہی ہوگی،ہمارا  گھریوسف اصلاحی صاحب سے تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ابا مرحوم اپنے طالب علمی کے زمانے کی باتیں کرتے تو اس میں ان کا ذکر ضرور ہی رہتا تھا۔ایک دفعہ کسی نے پروگرام میں یہ سوال کردیا پوچھا کے کیا مولانا عبدالقدیر اصلاحی صاحب آپ  کے کلاس میٹ ہیں؟



انہوں نے جواب دیا میں ان کا  کلاس میٹ رہا ہوں۔
ابا  اپنی کتابوں کی دوکان میں آداب زندگی منگاتے اور اپنے تمام ہی ملنے والے،اور جماعت کے مخالفین تک کو پڑھنے پر اصرار کرتے۔ اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتے کے اپنے دوست و۔اقارب کی شادیوں میں اس کتاب کو بطور تحفہ دیا جائے۔اس زمانے میں میری بڑی بہن تبسم ارشاد کے مضامین حجاب اور ذکرئ میں پابندی کے ساتھ چھپتے تھے۔ایسا بھی ہمارا گھرانا تعارف کا محتاج نہیں رہا ہے۔مولانا جب بھی بنگلور آتے ان کے بڑے پروگرام میں اگر میں شریک رہتا پروگرام کے ختم ہوتے ہی میں  فورا اسٹیج پر چڑھ جاتا۔اور اپنا تعارف کرا کر مولانا سے ملاقات کرتا مولانا کچھ دیر میرے ساتھ باتیں کرتے۔مولانا نجم الدین عمری صاحب مجھے روکتے ہی رہ جاتے۔ایک دفعہ ہاسن سے میرے دوست بنگلور پروگرام کے لئےگئے دوبئی کے ایک رکن جماعت سے مولانہ کے دیرینہ تعلقات تھے۔میرے دوستوں نے ان سے اپنی خواہش ظاہر کی کے آپ ہمیں مولانا سے ایک الگ ملاقات کرائیں۔ وہ دوست راضی ہوئے، مولانا جہاں رہائش تھے وہاں پر ملاقات طئے ہوئی۔ملاقات کیا ہوئی بس رسما ہی رہی پوری توجہ مولانا موصوف کی دوبئی میں مقیم ہاسن کے رکن جماعت پر ہی مرکوز رہی۔ یہ ہاسن کی ٹیم وہاں سے یہ تاثر لیکر اٹھے کے جماعت کے بڑے بڑے ذمہ دار،" رکن" سے کم پر کسی کو بات نہیں کرتے۔


مجھے افسوس ہوا،کہ وہ ٹیم مجھے لیجاتی تو میں ان سے ان کی اچھی طرح بات کرادیتا،ان کے ساتھ میرے دوستوں کی تصاویر لیتا۔اور اگر کوئی خوہش کرتا تو میں انکا پرسنل نمبر تک لیکر دیتا۔ مولانا کا دوبئی والے رکن کی توجہ صرف اور صرف اس وجہ سے تھی کے ان کے اکثر دورے دوبئی میں ہوتے رہے ہئں۔اور وہ صاحب دوببئ میں مولانا کے اور جماعت کے دوسرے بڑے ذمے داروں کے پروگرام  کنڈکٹ کرنے والوں میں سے ایک ہیں،مولانا کی توجہ اس لئےبھی مرکوز رہی کے یہاں ہند کے رفقاء سے کہیں نہ کہیں ملاقات ہو ہی جاتی تھی۔
میرے دوست میری صلاحیت کا اندازہ ہوتے ہوئے بھی، اسے تسلیم کرنا ان کے لئے کافی دشوار ہئے۔مجھے قریب سے دیکھتے ہیں مگر میری مدد لینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔میں تو کہتا ہوں آداب زندگی پڑھنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کافی نہیں، بلکے خود آداب زندگی پڑھ کر دوسروں کو آداب بتانا ہوگا۔ مولانا سے میری آخری ملاقات ہاسن اسلامک سنٹر میں چھ سال قبل، میرے والد کے انتقال سے ایک مہینہ پہلے  2014 میں ہوئی۔میں ان سے ان کی شاہکار کتاب آداب زندگی کا ذکر کیا، مگر وہ میری بات سے خوش ہونے کے بجائے یہ کہا کے ایمان کے ساتھ زندگی کا خاتمہ ہو یہ میری بڑی کامیابی ہے۔ان کا یہ چھوٹا سا جواب سن کر میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کے اتنی بڑی خدمات ادا کرکے بھی اللہ سے خوف اور طمع کے جزبات،کئی دن تک ان کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہے۔

  الحمداللہ ہم تحریکی رفقاء ان کی  کوششوں سے فائدہ اٹھائے ہیں، ان سے ملنے والے فائدے کا بدلہ ہم تو نہیں چکا سکتے، ان کے اس احسان کا بدلہ "اللہ"   تو ہی اپنے فضل سے عطا فرماء
۔آمین


عبدالعلی ابن عبدالقدیر اصلاحی۔

چامراج پیٹ

-بنگلورو



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.