السلام علیکم
برقع ٹوپی داڑھی ان چیزوں کا شمار اسلامی شعار میں ہوتا ہے ،ہر ملک کا اپنا اپناشعار ہوتا ہے جیسے ہندوستان کا ترنگا جھنڈا،پکاک،اشوک چکر، ٹائیگر ۔
ہندووں کا شعار تلک،ترشول۔وغیرہ پگڑی،کڑا،تلوار،یہ سکھوں کے شعائر ہیں۔
کرناٹک میں یونیورسٹی کالج کے اندر وہاں کے پرنسپل اپنے طور پر حجاب پہننے پر پابندی عائد کیے جا رہے ہیں ۔یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ان کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں ۔ویسے تو عام طور پر دیکھا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو لے بڑا ایشو بنایا جارہا ہے۔دو دن پہلے بنگلورو میں ریلوے سٹیشن کے اندر مسافروں کے لئے جو چھوٹی سی جگہ میں مسلہ بنایا ہوا تھا وہاں پر لوگوں نے گڑبڑ مچائی ۔حجاب پر اڑپی کا معاملہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ کنداپور کی کالج نے سر اٹھایا۔آئے دن مسلمانوں کے شعائر اسلام پر حملے کی کوشش کہیں نہ کہیں کسی نہ کس شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ہم نے کبھی اس کی طرف غور نہیں کیا کے آخر کیوں ایسا ہورہا ہے؟اس کے اندر کیا راز ہے۔
اسلام کی ایک ایک چیز اپنے اندر ایسی طاقت رکھتی ہیے کہ لوگ اس کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔اسلامی شعائر سے پوری دنیا خوف کھائی ہوئی ہے۔اور مسلمان بھی ان شعائروں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہے،
مسلمانوں نے اسلام کےاخلاقی اصول ،اسلام کے معاشرتی اصول،اسلام کے تمدنی اصول اسلام کے معاشی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔اور شعائر اسلام کو مظبوطی سے پکڑ رکھا ہے۔اسلام دشمن طاقتوں کا کہنا یہ ہے کہ تم ان شعائر اسلام کو چھوڑدو ہم اور تم برابر کے ہوجائینگے۔
شائد اللہ بھی ہمارے اس عمل سے ناراض ہے اور ہماری مدد کے لئے نہیں آرہا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ ہم پورے اسلام پر عمل کرکے دشمنان اسلام کو حقیقی اسلام کا تعارف کرائیں۔کیونکے وہ لوگ جو دشمنی بھی کریں وہ پوری طرح جان بوجھ کر کریں،ہمارا ہر عمل اسے نظر آیے،اسلام کے دشمنوں کو ہمارے ہر عمل سے اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کا موقع ملے۔ہم صرف اسلامی شعائر کے ذریعے اسلام کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔شعائر ایک طرح سے مسلمانوں کی شناخت بتاتا ہے۔مسلمان دشمن طاقت ہمارا مطالعہ کرتی ہیں اور اور دیکھتی ہیں کے ہندو اور مسلمان میں کوئی خاص فرق نہی ہے،اور اگر فرق ہے تو صرف چند رسم ورواج کا اور شعائر کا،بس کچھ رسوم ہیں جن کو ہٹانا ہے اور ان کی جگہ دوسرے رسوم کو لانا ہے۔باقی اس کے سوا کوئی فرق ہندو اور مسلمان میں نہی ہے۔مسلمانوں کے شعائر صرف ان کی پہچان کے لئے نہیں ہیں،بلکے ان کے پیچھے ایک مقصد کار فرما ہیے۔جس کے لیے مسلمان ان شعائر کو اختیار کرتے ہیں۔جس طرح برقہ،اوڑھنی،دوپٹہ،شعائر اسلام ہے اسی طرح داڑھی،ٹوپی،جبہ وغیرہ بھی اسلامی شعار میں شمار کیا جاتا ہے جو یہ پتہ دیتے ہیں کے،یہ وہ لوگ ہیں جن کے شعائر ایسے ہیں اور ان کی خوبیوں کو بیان کرتا ہے۔ان کی پہچان سوسائٹی میں ایسی ہے،ان کا ایسا معاشرہ ہے،یہ لوگ کسی سے لڑتے نہیں ہیں،یہ لوگ کسی پر ظلم نہی کرتے،ان کے پڑوس میں کوئی بھوکا نہیں رہتا،یہ لوگ آپس میں لڑتے بھی نہی ہیں۔ان کے پاس لڑائی جھگڑے کے مقدمات بھی نہی رہتے۔یہ شعائر اس بات کا پتا دیتے تھے کہ یہ لوگ بات کے پکے اور وعدے کے سچے ہوتے ہیں۔وہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔ان کے پاس سودی لین دین،بھوگیا،چٹھی،جوا،شراب وغیرہ سے کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا۔ان کی عورتیں اپنا چہرا تک کسی نا محرم کو نہیں دکھاتی ہیں۔ حجاب میں ایک چیز چھپی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا احترام ہر کوئی بغیر ارادے کے کرتا ہے،جس کی بھی نظر حجاب پر پڑتی ہے،بے اختیار اس کا سر احترام سےجھک جاتا ہے،اور وہ یہ سوچتا ہے کہ اس حجاب پر ہمارا احترام ہورہا ہے اور اس حجاب کے استعمال کرنے والے ایسے کسی احترام کے قابل نہیں تو کیوں نہ ان سے اس حجاب کو چھین لیا جائے تاکہ ہم ان کا احترام کرنا ہے فضول ہو۔
زمین و آسمان کا مالک ہمارے لیے جو بھی دیا ہے وہ ہر ایک چیز ہر ایک عمل اور ہر ایک کام قابل عمل ہے جس میں بے پناہ برکتیں رکھی ہیں۔جیسا کچھ حجاب،برقہ ،نقاب،پردہ، سے ظاہر ہوتا ہے۔ٹھیک ویسی ہی شکل ہماری پرسنل زندگی میں،پرائوٹ،زندگی میں،پبلک زندگی میں ہو، صرف پردا،ٹوپی سے کیسے وہ ہماری عزت اور تکریم کرینگے جب کے تمام دوسرے معاملات میں ہم ان سے کچھ بھی کم نہیں،ہم بھی دھوکہ دیتے اور وہ بھی،ہم بھی سودی لین دین کرتے ہیں اور وہ بھی, ہم بھی رشوت دے کر ٹنڈر حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی،جتنی بے ایمانی ان میں ہے اتنے بڑے بے ایمان ہم بھی ہیں،پھر کیوں نقاب ،برقا داڑھی اور ٹوپی کے لئے عزت ہو؟ان کا کہنا ہیے کہ داڑھی ،ٹوپی تمہارے لیے سجتی نہی ہے۔داڑھی ٹوپی اور حجاب کا احترام ہمارے دل میں ہے،لیکن ہم تمہیں محترم نہی سمجھتے۔
"دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں "
ہمارے چاہنے سے ان کی زہنیت نہی بدلتی ،بدلنا تو ہم کو ہے،اگر ہم نہی بدلے پھر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کے ہمیں ان کے سے رنگ اور ڈھنگ میں لانا۔جبکے ہم کو اپنی پوری زندگی خدا اور اس کے رسول کے بتاے ہوے طریقے پر قرآن کی روشنی میں اپنے آپ کو بدلنا ہیے۔ چند ایک رسوم پر ہمارا فوکس نہ ہو بلکے تمام کے تمام معاملات کو اور ہماری ساری زندگی کو ہی اس کے بتلایے ہوے طریقے پر عمل کرکے ہی ہم حقیقی عزت و سر بلندی سے جی سکیں گے۔
خودی کو کر بلند اتنا
کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے
بتا تیری رضا کیا ہے
عبدالعلی، چامراج پیٹ ،بنگلورو

💐💐
ReplyDeleteماشااللہ بہت خوب
ReplyDelete