مسلم امت، منزل اور راستہ
مسلم امت، منزل اور راستہ
محترم سعادت اللہ حسینی صاحب کی یہ کتاب واقع دور حاضر میں پائی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ مسلم امت کو ابھارتی ہے، اور اسے وہ کام کرنے کو آمادہ کرتی ہے۔ جو اس کو اور اس دنیا میں انجام دینا ہے۔ اس سے ہونیوالی کوتاہیوں کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے، جس سے امت اور ملک کا کوئی فائدہ نہی ہے۔ ماہنامہ زندگی نو میں کووڈ کے دور میں مسلسل چھپنے والے مضامین پر مشتمل ہیں۔ کتاب لگ بھگ دوسو چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ بھی شاندار ہے جسے محترم محی الدین غازی نے پیش کیا ہے شروعات ہی میں خوابوں کا تجزیہ کیا کہ جیل میں قیدیوں نے دیکھا۔ اور وہ خواب قیدیوں کا اپنی ذات سے تعلق تھا اور ایک خواب بادشاہ نے دیکھا جو کہ پورے ملک سے اس خواب کا تعلق تھا۔
محترم سعادت اللہ حسینی نے اس کتاب کا آغاز کووڈ اور رمضان کو لے کر شروع کیا ہے۔ رمضان پر اور اس میں کی جانے والی عبادتوں پر خوب ذکر ہے۔ پھر اس کووڈ والے رمضان پر ذکر ہوا ہے۔ ین آر سی اور سی اے اے پر صحیح اور دلوں کو اپیل کرنے والی بحث کی گئی ہے۔ ظلم پر بڑے عمدہ دلائل دئے ہیں اور بتایا گیا کے ظلم کے خلاف خاموشی اور ہمت ہارنا صبر کرنا قوموں کے زندہ رہنے کی نشانی نہی ہے۔ سوشیل میڈیا کو ہر زاویہ سے اس پر بحث کی گئی۔ جن باتوں کو ہم نظر انداز کرتے ہیں ان سب کا اپریشن کیا گیا اور بتایا گیا کہ بیماری کن کن راستوں سے آرہی ہے اور اس پر روک لگانے کیا کیا پلاننگ کی جاسکتی ہے۔ لنچنگ پر بہت اہم بحث کی گئی ہے۔ مایوسی سے نکال کر یقین پر لا کھڑا کرنے کی پوری کوشش کرڈالی ہے۔ سعادت اللہ حسینی صاحب نے واقعی ایک بہترین کتاب کو تصنیف کیا ہے۔ مسلمان دشمن طاقتوں کو بے نقاب کیا ہے اور مسلمانوں کو ان غیر ضروری اور لا حاصل باتوں سے بچنے کی نشانددہی بھی کی ہے۔ ان تمام غلطیوں کی نشانددہی کی ہی جس سے مسلم دشمن عناصر کو تقویت پہنچتی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ، عبادات اور حجاب کا معاملہ دوسری قومیں اسے اب تک احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا تھا۔ صبر پر بحث کی گئی ہے صبر کا مفہوم سمجھنے کے لیے ایک نیے انداز سے مفہوم کو پیش کیا گیا ہے۔ صبر کے چند ستر پڑھ کر ہی خواہش پیدا ہوجاتی ہیے کہ اس کتاب کو پڑھا جائے۔ پڑھنے کے دوران باربار یہ خیال آتا ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے میں کیوں اتنی دیر لگادی۔ اور پھر پڑھ چکنے کے بعد یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کتاب سے دوسرے محروم نہ ہوں۔ یہ کتاب دوسری زبانوں میں تراجم ہوکر دوسروں کو فائدہ دینے والی بنے اور ہم گھر کی مرغی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہیں۔ تیس چالیس سال بعد اگر کوئی اس کتاب کو پڑھے گا تو ایسے مصنف پر رشک کرے گا کہ واقع اس دور میں ایسے مصنفوں نے صحیح معنوں میں جہاد کیا ہے۔ اور اس کتاب کو پڑھنے والے ہر قاری کو اس فوج کا سپاہی سمجھے گا۔ اور وہ حسرت سے یہی کہے گا کے کاش میں اس دور میں پیدا ہوتا۔ اللہ تعالی مصنف مسلم امت،منزل اور راستہ کے سید سعادت اللہ حسینی صاحب کو جزاے خیر عطاء کرے۔ ان کی کوششوں کو ثمر آور بنائے۔ یہ کتاب اپنے روز مرہ کے کاموں سے فارغ ہوکر بھی روزانہ ایک گھنٹے کے حساب سے پندرہ دن میں ختم ہونےبوالی کتاب ہے۔ ویسے اس دنیا میں پورے کام انجام دیکر بھی، انسان کے پاس گھنٹوں وقت گنواتا ہے اور اسے یہ نہی معلوم ہوتا کے کیوں زندگی کے ایام اتنا جلد گزررہے ہیں، اتنا وقت نکل ہی آتا ہے کہ وہ آن لاین گیم میں اور اسی طرح کی فضول میں گم ہے۔ اگر کسی وجہ سے ایک دن اسے موبائل نہ ملے تو پتہ چلے کہ وقت کی رفتار میں کوئی کمی نہی ہوئی ہے پہلے کی طرح آج بھی دن 24 گھنٹوں کا ہے۔ اور جو لوگ لاحاصل چیزوں میں پڑے ہیں وہ اپنا قیمتی وقت گنوا رہے ہیں ۔ اور جو اپنے وقت کو اس طرح کے کاموں میں لگا رہے ہیں، وہ اصل میں اپنے فضول وقت کو قیمتی بنارہے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک خود کو اور وقت کو تباہ کررہا ہے۔ اور دوسرا خود کو اور معاشرے کا بنارہاہے۔ دونوں نے اپنے اپنے وقت کو کاٹا ہے۔ مضمون بڑا ہورہا ہے اور کتاب کے کچھ نمونے بھی لکھنا ہے۔ جو چاہیں تو پڑھ لیں پھر کتاب کے خریدنے کا ارادہ کریں۔ میں نے یہ کتاب بنگلورو کے اسلامک سنٹر سے 180 روپیے میں خریدی ہے۔ آپ میرے اس مضمون کا حوالہ دے کر ڈسکاونٹ لینے کی کوشش کریں۔ کیا پتہ کتاببکے مصنف کو اس کا علم ہوجائے اور وہ اس مضمون کا حوالہ دینے والے کو مزید اپنی طرف سے۔ ۔ ۔ ۔
کتاب کے چند نمونے حاضر خدمت ہیں نمونے کے طور پر ملاحظہ فرمائیں:
(١) ہمارا ایجنڈا ہم خود نہیں بلکہ ہمارے دشمن سیٹ کرنے لگتے ہیں۔ ان کے نعروں کے مقابلے میں جوابی نعروں انکے پینتروں اور ہتھکنڈوں کے ردعمل میں دفاعی اقدامات اور ان کے بچھائے ہوئے جالوں سے خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی کوششوں میں ہماری ساری اجتماعی توانائیاں صرف ہونے لگتی ہیں۔ مایوسی، خوف و ہراس، افعالیت اور بے بسی اس دفاعی نفسیات کی لازمی خصوصیات ہیں۔ نگاہیں منزل پر نہ ہوں تو راستے کی ہر چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ بڑا پہاڑ محسوس ہونے لگتی ہے اور اعصاب پر اس طرح سوار ہو جاتی ہے کہ بس اس کا ازالہ ہی زندگی کا نصب العین بن جاتا ہے۔ چنانچہ کبھی کوئی این آر سی کا شوشہ چھوڑتا ہے اور اونچے دانشوروں اور قائدین سے لے کر سوشل میڈیا پر مصروف طالب علم تک ہر ایک کئ مہینوں کے لئے مصروف ہو جاتا ہے۔ کوئی لنچنگ کے واقعات پر ماتم و سینہ کوبی اور لعنت و ملامت کو ملت کی خدمت سمجھ بیٹھا ہے تو کسی کے نزدیک کوئی اور مسئلہ امت مسلمہ کا واحد ایجنڈا ہے۔ ہمارے ذمہ دار لوگوں کی تقریریں ہاں یار دانشوروں کی تحریریں، ہماری صحافت ہو یا سوشل میڈیا پر تحریروں کا سیلاب ہر جگہ یہی منظر سامنے آتا ہے۔
(٢)ہمارے ملک میں اس سے پہلے کبھی حلال غذا پر اعتراض نہیں ہوتا تھا، لیکن اب ہونے لگا ہے۔ ملک کے تمام بھی عوام جاب کے عام طور پر عزت کرتے تھے لیکن اب اس پر پابندی کے مطالبات اٹھنا شروع ہوئے ہیں۔ تشدد کے واقعات جو صرف فرقہ وارانہ تناؤ کے حالات میں پیش آتے تھے، اب عام حالات میں پیش آنے لگے ہیں۔ ہلاک کیا تبدیلی فوری توجہ اور اصلاح حال کی تیز رفتار کوششوں کا ضرور تقاضہ کرتی ہے۔ لیکن ان حالات سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ حالات بدلے جا سکتے ہیں بشرطیکہ کے صحیح سمت میں کوشش کے لیے ہم تیار ہوں۔ ۵۴
(٣) جزبات جب قابو ہو جاتے ہیں تو آدمی کو اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا، وہ جذبات کا قیدی بن جاتا ہے۔ اس کا شعور معطل ہو جاتا ہے۔ آواز معذور ہو جاتے ہیں۔ سورج کی طرح روشن مناظر وہ نہیں دیکھتا، نوشتہ دیوار نہیں پڑھتا، فطرت کی بلند آہنگ صدائیں نہیں سنتا، اور دنیا و مافیہا اور امروز و فردا سے بے پرواہ ہو کر وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو جذبات کی اندھی آندھی اس سے کرانا چاہتی ہے۔ یہ ایک طرح کا نشہ ہوتا ہے۔ نشے میں بے قابو ہو جاتا ہے، اپنی حرکات و سکنات پر اس کا کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ نقصان کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب نشہ اتر جاتا ہے۔ اس وقت حقائق نظر آنے لگتے ہیں اور شدید پچھتاوا ہوتا ہے۔ یہی کیفیت جذبات سے بے قابو آدمی کی ہوتی ہے۔ یہی جذباتیت اور بے صبری ہے۔٦۵
والسلام
عبدالعلی بن عبدالقدیر اصلاحی ہاسن

