Seerat Server E Alam 15

1.      حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئی کہ باپ بیٹا روح القدس، تینوں ان کے سامنے ہیچ ہو گئے

2.      مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا

3.      پروٹیسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدّت سے آواز اٹھائی

4.      خصوصاً عیسائیوں کا تعلق تو دو وجوہ سے پیغمبرِ آخرالزماںﷺ سے اور بھی زیادہ گہرا ہونا چاہیے تھا

5.   پیغمبر آخرالزماں کو عیسائیوں سے متعدد معاملات ایسے پیش آئےجن کی بنا پر عیسائیوں کا رویہ حضورﷺ  اور مسلمانوں کے متعلق مختلف ہونا چاہیے تھا۔

6.   لیکن یہودیوں کی یہودیت اور عیسائیوں کی عیسائیت مسلمانوں کے حق میں ایک ایسا خلیج بن گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا اور مسلمانوں کے بہترین روئے کا جواب شدید عناد سے دیا گیا

حضرت مریم کو مادرِ خدا قرار دینا626   

عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اور روح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسیحؑ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی ایک مستقل معبود بنا ڈالا۔ حضرت مریم علیہ السلام کی الوہیت یا قدوسیت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائبل میں موجود نہیں ہے۔ مسیحؑ کے بعد ابتدائی 300 برس تک عیسائی دنیا اس تخیل سے بالکل نا آشنا تھی۔ تیسری صدی کے آخری دور میں اسکندریہ کے بعض علمائے دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریمؑ کے لیے "ام اللہ" یا "مادر خدا" کے الفاظ استعمال کیے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ الوہیت مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ لیکن اول اول چرچ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا۔ پھر جب لستوریس کے اس عقیدے پر کے مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جداگانہ شخصیتیں جمع تھیں، مسیحی دنیا میں بس و جدالوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لیے 431 عیسوی میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی اور اُس قوم میں پہلے مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم علیہ السلام کے لیے "مادر خدا" کا لقب استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، حتی کہ نزول قران کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئی کہ باپ بیٹا روح القدس، تینوں ان کے سامنے ہیچ ہو گئے۔ ان کے مجسمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ان کے آگے عبادت کے جملہ مراسم ادا کیے جاتے تھے انہی سے دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ وہی فریاد رس، حاجت روا، مشکل کشا اور بے کسوں کی پشتبان تھیں۔ ایک مسیحی بندے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ اعتماد اگر کوئی تھا تو وہ یہ تھا کہ "مادر خدا" کی حمایت و سرپرستی اُسے حاصل ہو۔ قیصر جسٹینین اپنا ایک قانون کی تمہید میں حضرت مریم کو اپنی سلطنت کی حامی و ناصر قرار دیتا ہے۔ اس کا مشہور جنرل ترسیس میدان جنگ میں حضرت مریمؑ سے ہدایت اور رہنمائی طلب کرتا ہے۔ نبی ﷺ کے ہم اثر قیصر ہرقل نے اپنے جھنڈے پر "مادر خدا" کی تصویر بنا رکھی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہوگا۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریکِ اصلاح کے اثر سے پروٹیسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدّت سے آواز اٹھائی لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے۔ 

عیسائیت بعثتِ خاتم النبینؐ کے بعد 649

الہامی کتب کے حامل ہونے کے لحاظ سے یہودی اور عیسائی دونوں گروہ اسلام سے اقرب ہونے چاہیے تھے کیوں کے اصلاً ان کا۔دین بھی اسلام ہی تھا۔ خصوصاً عیسائیوں کا تعلق تو دو وجوہ سے پیغمبرِ آخرالزماںﷺ سے اور بھی زیادہ گہرا ہونا چاہیے تھا۔ایک یہ کہ حضورﷺ کی دعوت حضرت مسیحؑ کے مابقیٰ کام کی تکمیل کا ذریعہ تھی، دوسرے یہ کہ یہودیوں سے کہیں بڑھ کر عیسائیوں کے مزہبی نوشتوں میں پیغمبر آخرالزماںﷺکے ظہور کی پیشن گوئیاں موجود تھیں۔ جن کو جاننے والے بعض لوگ نبیٓ آخرالزماں کے منتظر تھے۔ ایسے ہی لوگوں میں مشہور عیسائی بزرگ ورقہ بن نوفل بھی شامل ہیں۔ پھر یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ پیغمبر آخرالزماں کو عیسائیوں سے متعدد معاملات ایسے پیش آئےجن کی بنا پر عیسائیوں کا رویہ حضورﷺ  اور مسلمانوں کے متعلق مختلف ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہودیوں کی یہودیت اور عیسائیوں کی عیسائیت مسلمانوں کے حق میں ایک ایسا خلیج بن گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا اور مسلمانوں کے بہترین روئے کا جواب شدید عناد سے دیا گیا، اور اس عناد کی تکمیلی صورت حروبِ صلیبیہ ہیں، اور حروبِ صلیبیہ کے بعد ملّتِ اسلام کے خلاف یہودیوں سمیت عیسائیوں کی عالمگیر پالیسیاں نہایت درجے مکروہ رہیں۔





Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.