مذہبی اور نسلی عصبیت
591
(یہودیوں کا خیال تھا کہ) امانت اور دیانت کا
لحاظ صرف یہودیوں سے معاملہ کرنے میں ہونا چاہیے۔ غیر یہودیوں کا مال اگر مار لیا
جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ محض یہودی عوام کا جاہلانہ خیال ہی نہیں تھا۔
دراصل یہودیت کا پورا مذہبی نظام ایسا بنا دیا گیا تھا کہ وہ اخلاقی احکام میں
اسرائیل اور غیر اسرائیل کے درمیان قدم قدم پر تفریق کرتا ہے۔ ایک ہی چیز اسرائیل
کے ساتھ کی جائے تو ناجائز ہے مگر اسی کا ارتکاب غیر اسرائیل کے ساتھ کیا جا سکتا
ہے۔ ایک ہی چیز اسرائیل کے لئےحق ہے مگر غیر اسرائیل کے لیے حق نہیں ہے۔ مثلا بائبل
میں حکم ہے کہ جو قرض ایک شخص نے دوسرے کو دیا ہو وہ سات سال گزر جانے پر ضرور
معاف کر دیا جائے "مگر پردیسی سے اس کا مطالبہ کر سکتا ہے" ایک اور جگہ
سود لینے سے منع کیا گیا ہے مگر تو "پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے باپ بھائی
کو سود پر قرض نہ دینا"۔ ایک اور جگہ لکھا ہے "اگر کوئی شخص اپنے
اسرائیلی بھائیوں میں سے کسی کو غلام بنانے یا بیچنے کی نیت سے چراتا ہوا پکڑا
جائے تو وہ چور مار ڈالا جائے۔"تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل
کسی غیر اسرائیل کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں مگر غیر اسرائیل
کا بیل اگر اسرائیل کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر تاوان ہے۔ اگر کسی شخص کو کسی
جگہ گری پڑی چیز مل جائے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ گرد و پیش کی آبادی کن لوگوں کی
ہے۔ اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہیے، غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا
اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیے۔ ربی اشماعیل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیل کا
مقدمہ قاضی کے پاس آئے تو قاضی اگر اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو
جتوا سکتا ہو تو اس کے مطابق جتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے۔ اور اگر امیوں
کے قانون کے مطابق جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون
ہے۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو
کامیاب کر سکتا ہو کرے۔ ربی شمائل کہتا ہے کہ غیر اسرائیلی کی ہر غلطی سے فائدہ
اٹھانا چاہیے۔
