Seerat-Sarwar-e-Alam-12

1.      عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میںمختلف وجوہ سے رائج ہوگیا تھا

2.      زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود رکھا جاتا کہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈالدی جائے،

3.      پھر آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کرو۔

4.      اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کے جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اسے اللہ نے معاف کردیا۔

عرب میں قحبہ گری کی صورتیں 544

عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں رائج تھیں۔ ایک خانگی کا پیشہ۔ دوسرے باقعدہ چکلہ۔ "خانگی" کا پیشہ کرنے والی زیادہ تر آزاد شدہ لونڈیاں ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نا ہوتا تھا، یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے والا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا۔ یہ کسی گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت  ان کا معاہدہ ہوجاتا کہ وہ ان کو مدد خرچ دیں گے اور اپنی حاجت پوری کرتے رہیں گے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو عورت ان مردوں میں سے جس کے متعلق کہ دیتی کہ یہ بچہ اس کا ہے اسی کا بچہ وہ تسلیم کرلیا جاتا تھا۔ یہ گویا معاشرے میں ایک مسلم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا "نکاح" سمجھتے تھے (ابوداود)۔ دوسری صورت، یعنی کھلی قحبہ گری تمام تر لونڈیوں کے ذریعے سے ہوتی تھی۔ اس کے دو طریقے تھے۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی جوان لونڈیوں پر ایک بھاری رقم عائد کردیتے تھے کہ ہر مہینے اتنا کما کر ہمیں دیا کرو، اور وہ بیچاریاں بدکاری کرا کرا کر یہ مطالبہ پوری کرتی تھیں۔ اس کے سوا نہ کسی دوسرے ذریعہ سے وہ اتنا کما سکتی تھیں، نہ مالک ہی یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی پاکیزہ کسب کے ذریعے سے یہ رقم لایا کرتی ہیں، اور نہ جوان لونڈیوں پر عام مزدوری کی شرح سےکئی کئی گنی رقم عائد کرنے کی کوئی دوسری معقول وجہ ہی ہوسکتی تھی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنہیں دیکھ کر دور ہی سے معلوم ہوجاتا تھا کہ "حاجت مند" آدمی کہاں اپنی حاجت رفع کرسکتا ہے۔ یہ عورتیں "قلیقیات" کہلاتی تھیں اور ان کے گھر "مواخیر" کے نام سے مشہور تھے۔ بڑے بڑے رئیسوں نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے۔ خود عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین، وہی صاحب جنہیں نبیﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا طے کرچکے تھے، اور وہی صاحب جو حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے سب سے پیش پیش تھے، مدینے میں ان کا باقاعدہ ایک چکلہ موجود تھا جن میں چھے خوبصورت لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ان کے ذریعے سے وہ صرف دولت ہی نہی کماتے تھے بلکے عرب کے مختلف حصوں سے آنے والے معزز مہمانوں کی تواضع بھی انہی سے پوری کرتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد سے اپنے خدم و حشم کی فوج بھی بڑھاتے تھے۔   

لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا 548

عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میںمختلف وجوہ سے رائج ہوگیا تھا۔ ایک معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار ان پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں وہ حصولِ معیشیت میں ہاتھ بٹائیں گے، مگر بیٹیوں کو اس لئے ہلاک کردیا جاتا تھا کہ انہیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انہیں بیاہ دینا ہوگا۔ دوسرے عام بدامنی جس کی وجہ سے بیٹوں کو اس لئے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مدد گار ہوں گے، مگر بیٹیوں کو اس لئے ہلاک کردیا جاتا تھا کہ قبائیلی لڑائیوں میں الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع میں وہ کسی کام نہ آسکتی تھیں۔ تیسرے عام بدامنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے لگتی تھیں انھیں لیکر وہ یا تو لونڈیاں بناکر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے تھے۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود رکھا جاتا کہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈالدی جائے، اور اگر کبھی ماں اس پر راضی نہ ہوتی تو یا اس کے خاندان والےاس میں مانع ہوتے تو باپ بادلِ ناخواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لیجاکر زندہ دفن کردیتا۔ اس معاملے میں جو شقاوت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبیﷺ سے ایک مرتبا بیان کیا۔ سن دارامی میں پہلے ہی باب میں یہ حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضور سے اپنے عہدِجاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں۔اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی وہ میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ اس کو لیکر چل پڑا۔ راستے میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا یاتھ پکڑ کر اسے کنوئیں میں دھکا دے دیا۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی ہائے ابا، ہائے ابا۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ رودئےاور آپ کے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کیا اے شخص تو نے حضورؐ کو غمگین کردیا۔ حضورﷺ نے فرمایا اسے مت روکو، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے، اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو۔ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کرو۔ اس نےدوبارہ اسے بیان کیا اور آپؐ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسووں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کے جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اسے اللہ نے معاف کردیا۔ اب نئے سرےسے اپنی زندگی کا آغاز کر۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.