Seerat-Sarwar-e-Alam-11

1)     اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار ایسا مٹا کہ 2000 برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا

2)     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام کی دعوت پر مامور ہوئے تو دنیا میں بہت سے اخلاقی، تمدنی، معاشی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔

3)     حبش کی عیسائی حکومت موجود تھی جو چند ہی سال پہلے مکہ پر چڑھائی کر چکی تھی۔

4)     دیویوں اور دیوتاؤں کی باقاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی، اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا۔

5)     اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیاہے۔

6)     عرب سوداگر اونٹوں پر مہینوں کی راہ طے کرکے ان ملکوں میں تجارت کے لئے جاتے تھے اور صرف اموال کا تبادلہ کرکے واپس آجاتے تھے۔

7)     ان کے پاس اعلیٰ درجے کی باقاعدہ زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔

8)     وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کردیتے تھے

9)     انہیں کھانے اور لباس اور طہارت کے معمولی آداب تک معلوم نہ تھے۔

10)    زمانہ جاہلیت کےعرب اپنے آپ کو حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا پیرو کہتے اور سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ جس مزہب کا وہ اتباع کررہے ہیں وہ خدا کا پسندیدہ مزہب ہی ہے۔

تازیانہ مشیّت 516

اس پر تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا کہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہو گئی اور 64ء اور 66ء عیسوی کے درمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کر دی۔ ہیروداگرپا ثانی اور رومی پروکیوریٹر فلورس، دونوں اس بغاوت کو فروغ کرنے میں ناکام ہوئے۔ آخر کار رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کاروائی سے اس بغاوت کو کچل دیا اور 70 عیسوی میں ٹیبٹس نے بروز شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا۔ اس موقع پر قتل عام میں ایک لاکھ 33 ہزار آدمی مارے گئے۔ 67 ہزار آدمی گرفتار کرکے غلام بنائے گئے، ہزارہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے، ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تاکہ ایمفی تھیٹروں اور کلوسمیوں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختہ مشق بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئی، اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوند خاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار ایسا مٹا کہ 2000 برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا اور یرشلم کے شہر اور ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہو سکا۔ بعد میں قیصر بیڈریان نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیا، مگر اب اس کا نام ایلیا تھا اور اس میں مدتہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔

پوری انسانی دنیا پر ایک اجمالی نظر 529

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام کی دعوت پر مامور ہوئے تو دنیا میں بہت سے اخلاقی، تمدنی، معاشی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ رومی اور ایرانی اپریلزم بھی موجود تھا۔ طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ ناجائز معاشی انتفاع بھی ہو رہا تھا اور اخلاقی ذمائم بھی پھیلے ہوئے تھے۔ خود آپؐ کے اپنے ملک میں بہت سے پیچیدہ مسائل موجود تھے۔ ساری قوم جہالت، اخلاقی پستی، افلاس، طوائف الملوکی، اور خانہ جنگی میں مبتلا تھی۔ یمن تک مشرق اور جنوبی عرب کے تمام ساحلی علاقے عراق کے زرخیز صوبے سمیت ایرانی تسلط میں تھے۔ شمال میں حجاز کی سرحد تک رومی تسلط پہنچ چکا تھا۔ خود حجاز میں یہودی سرمایہ داروں کے بڑے بڑے گڑھ بنے ہوئے تھے اور انہوں نے عربوں کو اپنی سود خواری کے جال میں پھانس رکھا تھا۔ مغربی ساحل کے عین مقابل حبش کی عیسائی حکومت موجود تھی جو چند ہی سال پہلے مکہ پر چڑھائی کر چکی تھی۔ اس کے ہم مذہب اور اس سے ایک گونہ معاشی و سیاسی تعلق رکھنے والوں کا ایک جتھا خود حجاز اور یمن کے درمیان نجران کے مقام پر موجود تھا۔
شرک کا عالم گیر روگ 530

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کی دعوت لے کر اٹھے اس وقت دنیا کی مذہبی تصورات کیا تھے۔ بت پرست مشرکین ان خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی، پتھر، سونے، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے۔ شکل، صورت، اور جسم رکھتے تھے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی باقاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی، اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لیے اس کا انتظام کرتے تھے۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کے ماننے کے مدعی تھے، مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا۔ اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصے دار ہونے کا شرف حاصل تھا حتی کہ خدا کی ماں بھی ہوتی اور اس کی ساس بھی۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا، وہ ٹہلتا تھا، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا، اپنے کسی بندے سے کشتی بھی لڑلیتا تھا اور ایک عدد بیٹے (عزیر) کا باپ بھی تھا۔  ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوس آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست۔
انسانیت کی باطل تقسیموں کا فتنہ 530

قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے۔ جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیاہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیادی پر نہی بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطّے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہوجانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم ہوگئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہی رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قراردیا گیا ہو ان کے ساتھ غیروں کی بنسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے غیروں کے ساتھ نفرت، عداوت، تحقیر و تزلیل اور ظلم و ستم کی بدترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کے لئے فلسفے گھڑے گئے ہیں۔ مزہب ایجاد کئے گئے ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کئے گئے ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل درآمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیل کو خدا کی چیدہ مخلوق ٹھیرایا اور اپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائیلیوں کے حقوق اور مرتبے کو اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندووں کے یہاں درن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی روح سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھیرائے گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے آفریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہی، آج اس بیسویں صدی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے۔ یوروپ کے لوگوں نے برّ اعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیاء اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کرکے جو برتاو ان کے ساتھ کیا اس کی تہ میں یہی تصوّر کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں، غلام بنائیں اور ضرورت پڑی تو صفحئہ ہستی سے مٹا دیں۔ مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لئےجس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بدترین مثالیں زمانئہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جارہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفئہ نسلیت اور ناروک نسل کی برتری کا تصوّر پچھلے جنگِ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآ سانی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم اور تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لئے قرآنِ مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ الحجرآت آیت 13
مشرکینِ عرب کا معاشرہ ایک نظر میں 533
اس تاریک دور میں زمین کا ایک گوشہ ایسا تھاجہاں تاریکی کا تصرّف اور بھی زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ جو ممالک اس زمانے کے معیارِ تمدّن کے لحاظ سے متمدّن تھے ان کے درمیان عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد ایران روم اور مصر کے ملکوں میں علوم و فنون اور تہذیب و شائستگی کی کچھ روشنی پائی جاتی تھی۔ مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سے جدا کررکھا تھا۔ عرب سوداگر اونٹوں پر مہینوں کی راہ طے کرکے ان ملکوں میں تجارت کے لئے جاتے تھے اور صرف اموال کا تبادلہ کرکے واپس آجاتے تھے۔ علم و تہذیب کی کوئی روشنی ان کے ساتھ نہ آتی تھی۔ ان کے ملک میں نہ کوئی مدرّس تھا، نہ کوئی کتب خانہ تھا، نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچہ تھا، نہ علوم و فنون سے کوئی دلچسپی تھی۔ تمام ملک میں گنتی کے چند آدمی تھے جنہیں کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ مگر وہ بھی اتنا نہی کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے، ان کے پاس اعلیٰ درجے کی باقاعدہ زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ ان میں بہترین ادبی مذاق بھی موجود تھا۔ مگر ان کے لٹریچر کے جو کچھ باقیات ہم تک پہنچے ہیں ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی معلومات کس قدر محدود تھیں، تہذیب و تمدّن میں ان کا درجہ کس قدر پست تھا، ان پر اوہام کا کس قدر غلبہ تھا، ان کے خیالات اور ان کی عادات میں کتنی جہالت اور وحشت تھی، ان کے اخلاقی تصوّرات کتنے بھدّے تھے۔
وہاں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی۔ کوئی ضابطہ اور قانون نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار تھا، اور صرف جنگل کے قانون کی پیروی کی جاتی تھی۔ جس کا جس پر بس چلتا اسے مارڈالتا اور اس کے مال پر قابض ہوجاتا یہ بات ایک عرب بدوی کے فہم سے بالاتر تھی کہ جو شخص اس کے قبیلے کا نہی ہے اسے آخر وہ کیوں نہ مارڈالے اور اس کے مال پر کیوں نہ متصرف ہوجائے؟
اخلاق و تہذیب و شائستگی کے جو کچھ بھی تصورات ان لوگوں میں تھے وہ نہایت ادنیٰ سخت ناتراشیدہ تھے۔ پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز، شائستہ اور ناشائستہ کی تمیز سے وہ تقریباً نا آشنا تھے۔ ان کی زندگی نہایت گندی تھی۔ ان کے طریقے وحشیانہ تھے۔ زنا، شراب، چوری، رہزنی اور قتل و خونریزی ان کی زندگی کے معمولات تھے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف برہنہ ہوجاتے تھے۔ ان کی عورتیں تک ننگی ہوکر کعبے کا طواف کرتی تھیں۔ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کردیتے تھے محض اس جاہلانہ خیال کی بنا پر کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے۔ وہ اپنے باپوں کے مرنے کے بعد اپنی سوتیلی ماوں سے نکاح کرلیتے تھے، انہیں کھانے اور لباس اور طہارت کے معمولی آداب تک معلوم نہ تھے۔

حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کی پیروی کا زعم 534
زمانہ جاہلیت کےعرب اپنے آپ کو حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا پیرو کہتے اور سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ جس مذہب کا وہ اتباع کررہے ہیں وہ خدا کا پسندیدہ مذہب ہی ہے۔ لیکن جو دین ان لوگوں نے حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ سے سیکھا تھا اس کے اندر بعد کی صدیوں میں مذہبی پیشواء قبائل کے سردار، خاندان کے بڑے بوڑھے اور مختلف لوگ طرح طرح کے عقائد اور اعمال اور رسوم کا کرتے چلے گئے جنہیں آنے والی نسلوں نےاصل مذہب کا جز سمجھا اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ چوں کے روایات میں یا تاریخ میں کسی کتاب میں ایسا کوئی رکارڈ محفوظ نہ تھا جس سے معلوم ہوتا کہ اصل مذہب کیا تھا اور بعد میں کیا چیزیں کس زمانے میں کس نے کس طرح اضافہ کیں، اس وجہ سے اہل عرب کے لئے ان کا پورا دین مشتبہ ہوکر رہ گیا تھا۔ نہ کسی چیز کے تعلق یقین کے ساتھ یہ کہ سکتے تھے کہ یہ اس اصل دین کا جز ہے جو خدا کی طرف سے آیا تھا اور نہ یہی جانتے تھے کہ یہ بدعات اور غلط رسوم ہیں جو بعد میں لوگوں نے بڑھادیں۔


۔


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.