Seerat Server E Alam-04

1)     ایک ایسے شخص کے معاملے پر جس نے فی الواقع نبوت کا دعوی کیا ہے

2)     اگر وہ سچا ہے تو اس کو نہ ماننے والا کافر، اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو ماننے والا کافر۔

3)     کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں :

4)     کہ ختم نبوت امت مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے۔

5)  کہیں خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت رسالت

اور حیثیت انسانی اور حیثیت امارت میں کوئی فرق کیا گیا ہو

خاتم النبیین کے بعد دعوائے نبوت 158

قادیانیوں کے تعلق سے:-

آپ سرسری نظر سے ایک مدعی نبوت کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں یہ طریقہ ایسے اہم معاملے پر رائے قائم کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ تو سراسر ایک جھوٹے الزام کے بارے میں تھا جو بعض خود غرض لوگوں نے میرے اوپر لگایا تھا۔ اس بات کو آپ چسپاں کر رہے ہیں ایک ایسے شخص کے معاملے پر جس نے فی الواقع نبوت کا دعوی کیا ہے۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ایک مدعی نبوت کے معاملے میں لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک صورت پیش آتی ہے: اگر وہ سچا ہے تو اس کو نہ ماننے والا کافر، اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو ماننے والا کافر۔ ایک ایسے نازک معاملے کا فیصلہ آپ صرف اتنی سی بات پر کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ابھی تک ان پر کوئی گرفت نہیں کی،  اور ان کی جماعت بڑھ رہی ہے، اور یہ کہ "ہم کب تک خدائی فیصلہ کا انتظار کریں۔ " کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعوی کر بیٹھے اور اس کی جماعت ترقی کرتی نظر آئے اور آپ کی تجویز کردہ مدت انتظار کے اندر اس پر خدا کی طرف سے گرفت نہ ہو تو بس یہ باتیں اس کو نبی مان لینے کے لیے کافی ہیں؟ کیا آپ کے ذہن میں نبوت کو جانچنے کے یہی معیار ہیں؟

اب نئے نبی کی آخر ضرورت کیا ہے؟ 180

قران مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں :

 

اول: یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے ہو کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔

دوم : یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہوکے پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھلادی گئی ہو یا اس میں تحریف ہوگئی ہو اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔

 

سوم : یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لیے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔

 

چہارم : یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی نہ رہی ہے۔

 

ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ختم نبوت امت مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسی ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہو سکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی و رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور ماخذ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو وہ اِس برادری کا فرد ہے اور اور ہر وقت ہو سکتا ہے۔ یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہو سکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا کیونکہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔

 

خاتمہ کلام 203

قران مجید اور حدیث دونوں کی رو سے نبوت کا معاملہ دین میں اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اس پر آدمی کے کفر و ایمان کا مدار اور آخرت میں اس کی فلاح و خسران کا انحصار ہے۔ اگر آدمی ایک سچے نبی کو نہ مانے تو کافر، اور جھوٹے نبی کو مان لے تو کافر۔ اس طرح کی اہمیت و نزاکت رکھنے والے کسی معاملے کو بھی اللہ اور اس کے رسول نے مبہم اور پیچیدہ اور مشکوک نہیں رکھا ہے، بلکہ صاف اور واضح طریقے سے رہنمائی دی ہے تاکہ انسان کا دین و ایمان خطرے میں نہ پڑے اور اس کے گمراہ ہونے کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر نہ عائد ہو۔ اب دیکھیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کسی نبی کے زمانے میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ نبوت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے اور اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ انبیاء کی آمد کا دروازہ اس وقت کھلا ہوا تھا، کوئی شخص اس بنیاد پر کسی مدعی نبوت کا انکار کر دینے میں حق بجانب نہ تھا کہ اب کسی نبی کے آنے کا امکان ہی نہیں ہے۔ پھر اس زمانے میں انبیاء علیہ السلام اپنے بعد آنے والے نبیوں کی آمد کے لیے پیشن گوئی بھی کرتے رہتے تھے اور اپنے پیروں سے عہد لیتے تھے کہ بعد میں جو نبی آئے ان کی بھی وہ پیروی کریں گے۔

اتباع و اطاعت رسول 207

جو لوگ اسلام قبول کر لیں اور امت مسلمہ میں داخل ہو جائیں، ان کے لیے رسول کی حیثیت محض پیغام پہنچا دینے والے کی نہیں ہے، بلکہ رسول ان کے لیے معلم اور مربی بھی ہے، اسلامی زندگی کا نمونہ بھی ہے اور ایسا امیر بھی ہے جس کی اطاعت ہر زمانے میں بی چوں چراں کی جانی چاہیے۔

معلم مربی اور نمونہ 207

معلم کی حیثیت سے رسول کا کام یہ ہے کہ پیغام الہی کی تعلیمات اور اس کے قوانین کی تشریح و توضیح کرے۔ ویعلمھم الکتاب والحکم۔ مربی ہونے کی حیثیت سے اس کا کام یہ ہے کہ قرانی تعلیمات اور قوانین کے مطابق مسلمانوں کی تربیت کرے اور ان کی زندگیاں اسی سانچے میں ڈھالے  ویزکیہم ۔ نمونہ ہونے کی حیثیت سے اس کا کام یہ ہے کہ خود قرانی تعلیم کا عملی مجسمہ بن کر دکھائے تاکہ اس کی زندگی اس زندگی کی ٹھیک ٹھیک تصویر ہو جو کتاب اللہ کے مقصود کے مطابق ایک مسلمان کی زندگی ہونی چاہیے، اور اس کے ہر قول اور اس کے ہر فعل کو دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ زبان کو اسی طرح استعمال کرنا، اور اپنی قوتوں سے یوں کام لینا، اور دنیا کی زندگی میں ایسا برتاؤ رکھنا کتاب اللہ کے مقصود کے مطابق ہے۔ اور جو کچھ اس کے خلاف ہے وہ منشا کتاب کے خلاف ہے لقد کان رسول اللہ اسوۃ الحسنہ اور وما ینطق عن الھوایٰ ان ھوالا وحی یوحی۔ اس کے ساتھ ہی رسول کی حیثیت مسلمانوں کے امیر کی بھی ہے۔ ایسا امیر نہیں جس سے نزاع کی جا سکے بلکہ ایسا امیر جس کے حکم کو بی چوں چراں ماننا ویسا ہی فرض ہے جیسا قران کی ایات کو ماننا فرض ہے۔ فان تنازعتم فروہو الی اللہ والرسول اور ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ ایسا امیر نہیں جو صرف اپنی زندگی ہی میں امیر ہوتا ہے، بلکہ ایسا امیر جو قیامت تک کے لیے امت مسلمہ کا امیر ہے جس کے احکام مسلمانوں کے لیے ہر زمانے اور ہر حال میں مرجع ہیں۔

صرف پیغام بری نہیں 208

جو تفریق انہوں نے محمد بن عبداللہ بحیثیتِ انسان, اور محمد رسول اللہ بحیثیتِ مبلغ، کے درمیان کی ہے یہ قران مجید سے ہرگز ثابت نہیں ہے۔ قران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حیثیت بیان کی گئی ہے اور وہ رسول و نبی ہونے کی حیثیت ہے۔ جس وقت اللہ تعالی نے آپؐ کو منصب رسالت سے سرفراز کیا اس وقت سے لے کر حیات جسمانی کی آخری سانس تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ان اور ہر حال میں خدا کے رسول تھے۔ آپ کا ہر فعل اور ہر قول رسول خدا کی حیثیت سے تھا۔ اسی حیثیت سے آپ مبلغ اور معلم بھی تھے، مربی اور مذکی بھی تھے قاضی اور حاکم بھی تھے، امام اور امیر بھی تھے، حتی کہ آپؐ کی نجی اور خاندانی اور شہری زندگی کے سارے معاملات بھی اسی حیثیت کے تحت آگئے تھے۔ اور ان تمام حیثیتوں میں آپؐ کی زندگی ایک انسان کامل اور مسلم قانت اور مومن صادق کی زندگی کا ایسا نمونہ تھی۔ جس کو حق تعالی نے ہر اس شخص کے لیے بہترین قابل تقلید نمونہ قرار دیا تھا جو اللہ کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہو۔ لقد کان رسول اللہ اسوۃ الحسنہ پر جو اللہ اور یوم اخر (الاحزاب ٢١) قران مجید میں کہیں خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت رسالت اور حیثیت انسانی اور حیثیت امارت میں کوئی فرق کیا گیا ہو۔ اور یہ فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جب آپؐ خدا کے رسول تھے تو لازم تھا کہ آپؐ کی پوری زندگی خدا کی شریعت کے ماتحت ہو، اس شریعت کی نمائندہ ہو، اور آپؐ سے کوئی ایسا فعل اور کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہو جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.