السلام علیکم
بنی اسرائیل کا ایک واقعہ ہے کہ کچھ لوگ سفر کررہے تھے،
اس قافلے میں اچھے دین دار علماء بھی تھے، ہٹّے کٹّے جوان لوگ بھی تھے۔ اس
قافلے میں ایک بوڑھا شخص بھی تھا، کمزور ناتواں، ہمیشہ منزل پر دیر سے پہنچتا اس
کی وجہ سے سارا قافلہ پریشان تھا۔ اپنے ساتھ اس بوڑھے کو رکھنا مشکل ہورہا تھا،
قافلے کے لوگ اس بوڑھے کو کوس رہے تھے۔ ہمیشہ وہ قافلے سے دور رہتا لوگ اس کا
انتظار کرتے۔
قافلہ منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ ایک روز ایک جگہ رات کے وقت پڑاو کیا۔ اس رات خوب بارش ہورہی تھی، بجلی بھی خوب چمک رہی تھی قافلے کے لوگ ڈر رہے تھے۔ طوفانی بارش، تیز ہوائیں، اس پر پر سے بجلی کی کڑک نے قافلے پر خوف کا ماحول بنادیا تھا۔ اتنے میں ایک عالم کی آواز گونجی انہوں نے کہا یہ بجلیاں اس لئے کڑک رہی ہیں کہ ہمارے قافلے میں کوئی خدا کا نافرمان بندا ہے، جب تک ہم اسے اس قافلے سے الگ نہی کرتے، اللہ تعالیّ کا عذاب ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔
قافلے کے اکابرین نے آپس میں اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم میں کا ہر ایک فرد سامنے زیتون کے درخت کو چھو کر آئے گا، ہم میں سے جو کوئی گنہگار ہوگا وہ بجلی سے ہلاک ہوگا۔ یوں سارا قافلہ تباہ ہونے سے بچ جائے گا۔ باری باری سب لوگ اس زیتون کے درخت کے پاس جاتے اور اسے چھو کر واپس آجاتے۔
قرعہ اندازی سے ایک ایک فرد زیتون کے درخت پر جاتا اور واپس آجاتا۔ اسی طرح سارے قافلے کے افراد سامنے زیتون کے درخت تک جاتے اور تیزی سے واپس آجاتے۔ آخر میں ایک بوڑھا شخص بچا جو ہمیشہ سے قافلے کے پیچھے ہوجاتا تھا جس نے پورے قافلے کو تنگ کر رکھا تھا۔ اب اس کی باری تھی قافلے والوں نے اسے طعنہ دینا شروع کیا، گنہگار گردانا، اسے کوسنے لگے۔ وہ شخص اٹھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ آہستہ آہستہ قدم رکھتا ہوا زیتون کے درخت کی طرف بڑھا، جیسے ہی وہ واپس جانے کے لئے مڑا، زور سے بجلی کی چمکی اور گرجدار آواز سے بجلی گری جس سے قافلے کے سارے لوگ وہیں پر ڈھیر ہوگئے۔ اللہ نے اس بوڑھے اور ضعیف کمزور کی وجہ سے پورے قافلے کو بچائے رکھا تھا۔ جیسے ہی وہ بوڑھا اس قافلے سے الگ ہوا قافلے ختم ہوگیا۔

شہر بنگلور میٹرو کے پروگرام کو کالج کی تین طالبات شرکت سے محروم رہ گئیں۔ اس کی وجہ شاید ان کا دیر سے نکلنا اور ناواقف جگہ میں ہماری بس کو تلاش کرنا ہوا ہو۔ ہمیں کچھ انتظار کرنا تھا اس لئے کہ وہ اپنی چھٹیاں اجتماع میں شرکت کے لئے ذہن میں پہلے سے پروگرام بنائے ہوئےتھیں۔ ہمیں اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ پولیس وہاں پہنچتے یا ٹرافک میں خلل نظر آتا۔ اللہ نے ہمارا امتحان لیا اور ہم اس میں کامیاب نہی ہوئے۔ ہمیں اس کا کم ہی احساس ہے کہ ایک فرد کو اپنے اجتماع میں شریک کرانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے، تب کہیں ذہن بنتا ہے۔ ہمیں بھی جلدی میں یہ نہی سوجھا کہ ہم کیا کریں کہاں تلاش کریں؟ ان کو اپنا لوکیشن بھیج دیتے توشاید وہ ہمیں پالیتے۔ یوں ہمارے قافلے میں مزید تین کا اضافہ ہوجاتا۔ یہ ہماری غلطیاں ہیں میں بھی اس میں برابر مجرم ہوں اللہ ہمیں معاف کرے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کوشش ہو کہ جو لوگ ہمارے قافلے میں شریک ہونا چاہتے ہیں ان کو ہم کسی بھی صورت میں الگ نہی ہونے دینگے۔ اپنے چھوٹے قافلے کو بڑے کارواں میں بدلیں گے انشاء اللہ۔
عبدالعلی بن عبدالقدیر اصلاحی ہاسن









