Seerat Server E Alam-06


1.     انبیاء پر ہمیشہ اللہ کی نگرانی رہتی ہے، ان کو غلط روی سے محفوظ رکھا جاتا ہے

2.  یہی وجہ ہے کہ قران میں بعض ایسی باتوں پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کی گئی ہے جو عام انسانی زندگی میں قطعا کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

3.  مثلا کسی انسان کا شہد کھانا یا نہ کھانا، اور کسی اندھے کی طرف توجہ نہ کرنا، اور اس کی دخل در معقولات پر چین بجیں ہو جانا، یا کسی کے لیے دعائے مغفرت کرنا، کون سا ایسا اہم واقعہ تھا؟

4.     مرضی الہی کے خلاف بال برابر بھی جنبش کرتا ہے تو اللہ وحی جلی سے اس کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

5.     کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ عربی بولتے تھے تو کیا ہم بھی عربی بولیں؟

6.     آپؐ نے عرب عورتوں سے شادیاں کیں تو کیا ہم بھی عربوں ہی میں شادیاں کریں؟

7.     آپؐ ایک خاص وضع کا لباس پہنتے تھے تو کیا ہم بھی ویسا ہی لباس پہنیں؟

8.     وہ پاک زندگی پوری کی پوری ایک سچے اور خدا ترس مسلمان کی زندگی کا معیاری نمونہ تھی۔

اسلامی حریت فکر و نظر کی تباہی کا دور 222

تقریبا تین صدیوں تک تحقیق و اجتہاد اور حریت فکر و نظر اور آزادانہ طلب حق کی وہ سپرٹ مسلمانوں میں پوری شان کے ساتھ باقی رہی جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین میں پیدا کر گئے تھے۔ اس کے بعد امراء و حکام اور علماء و مشائخ کے استبداد نے اس روح کو کھانا شروع کر دیا۔ سوچنے والے دماغوں سے سوچنے کا حق اور دیکھنے والی آنکھوں سے دیکھنے کا حق اور بولنے والی زبانوں سے بولنے کا حق سلب کر لیا گیا۔ درباروں سے لے کر مدرسوں اور خانقاہوں تک ہر جگہ مسلمانوں کو غلامی کی باقاعدہ تربیت دی جانے لگی، دل اور دماغ، روح اور جسم کی غلامی ان پر پوری طرح مسلط ہو گئی۔ دربار والوں نے اپنے سامنے رکوع اور سجدے کرا کے غلامانہ ذہنیت پیدا کی۔ مدرسے والوں نے خدا پرستی کے ساتھ اکابر پرستی کا زہر دماغوں میں اتارا۔ خانقاہ والوں نے بیعیت کے مسنون طریقے کو مسخ کر کے "مقدس غلامی" کا وہ طوق مسلمانوں کی گردنوں میں ڈالا جس سے زیادہ سخت اور بھاری طوق انسان نے انسان کے لیے کبھی ایجاد نہ کیا ہوگا۔ جب غیر اللہ کے سامنے زمین تک سر جھکنے لگیں، جب غیر اللہ کے آگے نماز کی طرح ہاتھ باندھے جانے لگیں،  جب انسان کے سامنے نظر اٹھا کر دیکھنا سوء ادبی ہو جائے، جب انسان کے ہاتھ اور پاؤں چومے جانے لگیں،  جب انسان، انسان کا خداوند اور ان داتا بن جائے، جب انسان بذات خود امر و نہیں کا مختار اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی سند سے بے نیاز قرار دیا جائے، جب انسان خطا سے پاک اور نقص سے بری اور عیب سے منزہ سمجھ لیا جائے، جب انسان کا حکم اور اس کی رائے اعتقاد نہ صحیح عملا اس طرح واجب الاطاعت قرار دے لی جائے جس طرح خدا کا حکم واجب الاطاعت ہے، تو پھر سمجھ لیجئے کہ اس دعوت سے منہ موڑ لیے گئے جو الا تعبد الاللہ و لانشرک بہی شیاءً ولا یتخذ بعضنا بعضا ارباباً من دون اللہ کے الفاظ میں دی گئی تھی۔  اس کے بعد کوئی علمی، اخلاقی،  روحانی ترقی ممکن ہی نہی۔  پستی اور زوال اس کا لازمی نتیجہ ہے۔

بچپن سے انبیاء کی تربیت کا خصوصی اہتمام 225

انبیاء علیہ السلام کے جو حالات قران مجید میں بیان ہوئے ہیں ان کو دیکھنے سے مجھ کو نبوت کی حقیقت یہ نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ تعالی کا ایک راہ چلتے کسی کو پکڑ کر اپنی کتاب پہنچانے کے لیے مامور کر دیتا ہو، یا کسی شخص کو اس طور پر اپنا پیغام بری کے لیے مقرر کرتا ہو کہ وہ ایک جز وقتی مزدورPart Time Worker ہے۔ جو مقرر اوقات میں ایک مقرر کام کر دیتا ہے اور اس کام کو ختم کرنے کے بعد آزاد ہوتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ برعکس اس کے میں دیکھتا ہوں کہ اللہ نے جب کسی قوم میں نبی بھیجنا چاہا ہے تو خاص طور پر ایک شخص کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ نبوت کی خدمت انجام دے۔ اس کے اندر انسانیت کی وہ بلند ترین صفات اور وہ اعلی درجے کی ذہنی اور روحانی قوتیں ودیعت کی ہیں جو اس اہم ترین منصب کو سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔  پیدائش کے وقت سے خاص اپنی نگرانی میں اس کی پرورش اور تربیت کرائی ہے۔ نبوت عطا کرنے سے پہلے اس کو اخلاقی عیوب سے، گمراہیوں اور غلط کاریوں سے محفوظ رکھا ہے۔ خطرات اور مہلکوں سے اس کو بچایا ہے۔ اور ایسے حالات میں اس کی پرورش کی ہے جن میں اس کی استعداد نبوت قوت سے ترقی کر کے فعالیت کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ پھر جب وہ اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے تو اس کو خاص اپنے پاس سے علم اور قوت فیصلہ Judgement اور نور ہدایت عطا کر کے منصب نبوت پر مامور کیا ہے اور اس سے اس طرح یہ کام لیا ہے کہ اس منصب پر آنے کے بعد سے آخری سانس تک اس کی پوری زندگی اسی کام کے لیے وقت رہی ہے۔ اس کے لیے دنیا میں تلاوت ایات اور تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس کے سوا کوئی مشغلہ نہیں رہا ہے۔ رات دن، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، اس کو یہی دھن رہی ہے کہ گمراہوں کو راہ ہدایت پر لائے، اور راہ راست پر آجانے والوں کو ترقی کے اعلی منزلوں پر جانے کے قابل بنائے۔ وہ ہمیشہ ایک ہمہ وقتی ملازم Hole Time Servent رہا ہے جس کو کبھی چھٹی نہیں ملی۔ اور نہ کبھی اس کے لیے اوقات کار Working Hour's مقرر کیے گئے۔ اس پر خدا کی طرف سے شدید نگرانی مقرر رہی ہے کہ خطا نہ کرنے پائے۔ ہوائے نفس کے اتباع اور شیطانی وساوس سے اس کی سخت حفاظت کی گئی ہے۔ اور معاملات کو بالکل اس کی بشری عقل اور اس کے انسانی اجتہاد پر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ جہاں بھی اس کی خواہش اور اس کے اجتہاد نے خدا کے مقرر کیے ہوئے خط مستقیم سے بال برابر بھی جنبش کی ہے، وہیں اسے ٹوک کر سیدھا کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی پیدائش اور اس کی بعثت کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ خدا کے بندوں کو سواء سبیل اور صراط مستقیم پر چلائے۔ اگر وہ اس خط سے ایک سر منہ بھی ہٹا تو عام انسان میلوں دور نکل جاتے۔

متذکرہ ایات کا ما حاصل 237

یہ بات بھی قران نے کھول کر بیان کر دی ہے کہ انبیاء پر ہمیشہ اللہ کی نگرانی رہتی ہے، ان کو غلط روی سے محفوظ رکھا جاتا ہے، اور اور اگر بتقاضہ بشریت ان سے کبھی کوئی لغزش ہو جاتی ہے، یا وحی خفی کے لطیف اشارے کو سمجھنے میں وہ کبھی غلطی کر جاتے ہیں، یا اپنے اجتہاد سے کوئی ایسی روش اختیار کر جاتے ہیں جو مرضیات الٰہی سے یک سر مو ہٹی ہوئی ہو تو اللہ تعالی فورا اس کی اصلاح کرتا ہے اور تنبیہ کر کے فورا سیدھے راستے پر لے آتا ہے۔ قران مجید میں نبیؐ اور دوسرے انبیاء کرام کی لغزیشیں اور ان پر اللہ تعالی کی تنبیہوں  کا جو ذکر آیا ہے اس ہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں سے انبیاء علیہ السلام کا اعتماد اٹھ جائے اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جب انبیاء بھی ہماری طرح نعوذ باللہ غلط کار ہیں تو ان کے احکام کی اطاعت اور ان کی روش کی پیروی کامل اطمینان کے ساتھ کیسے کی جا سکتی ہے،بلکہ اس ذکر سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالی نے انبیاء کو ہوائے نفس کا اتباع کرنے یا اپنی رائے یا بشری اجتہاد پر چلنے کے لیے ازاد نہیں چھوڑ دیا ہے۔ وہ چونکہ اس کی طرف سے اس کے بندوں کی رہنمائی کے لیے مامور کیے گئے ہیں، اس لیے ان پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ دائما اس کی ہدایت پر کاربند رہیں اور انہیں زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی اس کی رضا کے خلاف عمل نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ قران میں بعض ایسی باتوں پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کی گئی ہے جو عام انسانی زندگی میں قطعا کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مثلا کسی انسان کا شہد کھانا یا نہ کھانا، اور کسی اندھے کی طرف توجہ نہ کرنا، اور اس کی دخل در معقولات پر چین بجیں ہو جانا، یا کسی کے لیے دعائے مغفرت کرنا، کون سا ایسا اہم واقعہ تھا؟ مگر اللہ نے نبی کو ایسے چھوٹے معاملات میں بھی اپنی رائے یا دوسروں کی مرضی پر چلنے نہ دیا۔ اسی طرح جنگ کی شرکت سے کسی کو معاف کر دینا اور بعض قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا ایک امیر کی زندگی میں محض ایک معمولی واقعہ ہے۔ مگر نبی کی زندگی میں یہی واقعہ اتنا اہم بن جاتا ہے کہ اس پر وہی ہے جلی کے ذریعے سے تنبیہ کی جاتی ہے کیوں؟ اس لیے کہ اللہ کے نبی کی حیثیت عام امرء کی سی نہیں ہے کہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں ازاد ہو، بلکہ منصب نبوت پر مامور ہونے کی وجہ سے نبی کے لیے لازم ہے کہ اس کا اجتہاد بھی ٹھیک ٹھیک منشاء الہی کے مطابق۔ اگر وہ اپنے اجتہاد میں وہی خفی کے اشارے کو ٹھیک ٹھیک نہ سمجھ کر مرضی الہی کے خلاف بال برابر بھی جنبش کرتا ہے تو اللہ وحی جلی سے اس کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

دائرۃاستثناء 238

پس اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرنا چاہے اور اسی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مطالعہ کرے تو اس کے لیے یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ کن امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع طابق النّعل بالنّعل ہونا چاہیے اور کن امور میں آپؐ کی سنت سے اخلاق و حکمت اور خیر و صلاح کے عام اصول مستبط کرنے چاہیں۔  مگر جن لوگوں کی طبعیت نزاع پسند واقع ہوتی ہے وہ اس میں طرح طرح کی حجتیں نکالتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ عربی بولتے تھے تو کیا ہم بھی عربی بولیں؟ آپؐ نے عرب عورتوں سے شادیاں کیں تو کیا ہم بھی عربوں ہی میں شادیاں کریں؟ آپؐ ایک خاص وضع کا لباس پہنتے تھے تو کیا ہم بھی ویسا ہی لباس پہنیں؟  آپؐ ایک خاص قسم کی غذا کھاتے تھے تو کیا ہم بھی وہی غذا کھائیں؟ آپ کی معاشرت کا ایک خاص طریقہ تھا تو کیا ہم بھی بعینہ ویسی ہی معاشرت اختیار کریں؟  کاش یہ لوگ غور کرتے کہ اصل چیز وہ زبان نہی ہےجو آپ بولتے تھے بلکہ وہ اخلاقی حدود ہیں جن کی پابندی کو حضورؐ نے ہمیشہ کلام میں ملحوظ رکھا۔  اصل چیز یہ نہی کہ شادی عرب عورتوں سے کی جائے یا غیر عرب سے، بلکہ یہ ہے کہ جس عورت سے بھی کی جائے اس کے ساتھ ہمارا معاملہ کیسا ہو،  اس کے حقوق ہم کس طرح ادا کریں،  اور اپنے جائز شرعی اختیارات کو اس پر کس طرح استعمال کریں۔  اس معاملے میں رسول اللہؐ کا جو برتاو اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ تھا اس سے بہتر نمونہ ایک مسلمان کی خانگی زندگی کے لئےاور کونسا ہوسکتا ہے؟ پھر کس نے کہا کہ آپؐ جس وضع کا لباس پہنتے تھے وہ ایک مشروع لباس ہے؟ اور جو کھانا آپ کھاتے تھے بعیینہ وہی کھانا ہر مسلمان کو کھانا چاہیے؟ اس میں اتباع کے قابل جو چیز ہے وہ تو تقویٰ اور پاکیزگی کے وہ حدود ہیں جو آپ اپنے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں ملحوظ رکھتے تھے۔  ان ہی حدود سے ہم کو معلوم ہوسکتا ہے کہ رہبانیت اور نفس پرستی کے درمیان جس معتدل روش کا ہم کو قران میں ایک مجمل سبق دیا گیا ہے اس پر ہم کس طرح عمل کریں کہ نہ تو طیبات سے ناروا اجتناب ہواور نہ اسراف۔  یہی حال حضورﷺ کی پرائیوٹ اور پبلک زندگی کے دوسرے تمام معاملات کا بھی ہے۔  وہ پاک زندگی پوری کی پوری ایک سچے اور خدا ترس مسلمان کی زندگی کا معیاری نمونہ تھی۔ حضرتِ عائشہ نے سچ فرمایا کہ کان خلقہ قران۔ اگر تم کو معلوم کرنا ہو کہ قران کی تعلیم اور اسپرٹ کے مطابق ایک مومن انسان کو دنیا میںبکس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے،  تو محمدؐ کی زندگی کو دیکھ لو۔  جو اسلام خدا کی کتاب میں مجمل ہے وہی رسولِ خدا کی ذات میں تم کو مفصل نظر آئیگا۔


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.