Seerat Server E Alam-05

1)      بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا

2)      مگر وہ اس لیے تھا کہ آپؐ اپنی امت کے لیے مشاورت کا نمونہ پیش کریں

3)      اطاعت خدا سے مراد قران مجید کے احکام کی اطاعت ہے۔

4)      اطاعت رسول سے مراد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل کی پیروی ہے

5)      مسلمانوں کا کام سننا اور اطاعت کرنا ہے

6)      انسان نہ کسی کا مخلوق ہے نہ بندہ نا پروردہ۔ اسی لیے دراصل کسی انسان پر کسی دوسرے انسان کی اطاعت فرض نہیں۔

7)   ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کے باغبانوں کو کھجور کی کاشت کے متعلق ایک مشورہ دیا۔ لوگوں نے اس پر عمل کیا مگر وہ مفید ثابت نہ ہوا۔

8)      جنگ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابتدا میں جہاں خیمہ زن ہوئے تھے وہ جگہ مناسب نہ تھی۔

9)   غزوہ خندق کے موقع پر حضورؐ نے بنی غطفان سے صلح کرنے کا ارادہ فرمایا۔ انصار کے سرداروں نے عرض کیا کہ اگر یہ ارادہ وحی کے بنا پر ہے تو مجال کلام نہیں۔

10)  صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام مسلمانوں کو بظاہر دب کر صلح کرنا پسند نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ علانیہ اس سے اختلاف کیا۔ 

آپؐ خدا کے مامور کردہ امیر تھے 209

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے بنائے ہوئے امیر نہیں تھے، نہ خود بن گئے تھے بلکہ آپؐ خدا کے مقرر کیے ہوئے امیر تھے۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی امارت آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے الگ نہ تھی۔ دراصل آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم رسول خدا ہونے کی حیثیت ہی سے امیر تھے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم امیر نہیں بلکہ مامور من اللہ تھے۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر وہ اس لیے تھا کہ آپؐ اپنی امت کے لیے مشاورت کا نمونہ پیش کریں اور خود اپنے عمل سے جمہوریت کے صحیح اصول کی طرف رہنمائی فرما دیں اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ آپؐ کی حیثیت دوسرے امیروں کی سی ہے۔ دوسرے امراء کے لیے تو یہ قانون مقرر کیا گیا ہے کہ وہ مشورے سے کام کریں، وامرھم شوری بینھم (الشوری ٣٩)۔ اور یہ کہ اگر شوری میں نزاع ہو تو خدا اور رسول کی طرف رجوع کیا جائے فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول۔(النساء ۵٣) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے وہیں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جب آپؐ کسی بات کا عزم فرمالیں تو خدا پر بھروسہ کرکے عمل کا اقدام فرمالیں فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ مشورے کے محتاج نہ تھے۔ بلکہ آپؐ کو مشورہ کا حکم صرف اس لیے دیا گیا تھا کہ آپؐ کے مبارک ہاتھوں سے ایک صحیح جمہوری طرز حکومت کی بنیاد پڑ جائے۔

اطاعت کے تین مراتب 211

قران مجید میں اطاعت خدا، اطاعت رسول، اور اطاعت اول الامر کے تین مراتب بیان کیے گئے ہیں۔

اطاعت خدا سے مراد قران مجید کے احکام کی اطاعت ہے۔ اطاعت رسول سے مراد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل کی پیروی ہے۔ اور اطاعت الامر سے مراد مسلمانوں کے ہمراہ اور ارباب حل و عقد کی اطاعت ہے۔ پہلے دونوں مراتب کے متعلق قران میں ایک جگہ نہیں بیسواں جگہ اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ خدا اور رسول کے احکام میں کسی چون چراں کی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کام سننا اور اطاعت کرنا ہے۔ خدا اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مسلمان کو یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ وہ اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرے۔ رہا تیسرا مرتبہ تو اس کے متعلق یہ فرمایا گیا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت خدا اور رسول کے احکام کے تابع ہے، اور نزاع کی صورت میں خدا اور رسول کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔ ایسے صاف اور کھلے ہوئے احکام کے موجود ہوتے ہوئے اس کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے کہ خدا اور رسول سے مراد امارت لی جائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب امارت کو اس امارت کے ساتھ ملا دیا جائے جو مسلمانوں کے عام امراء کو حاصل ہے۔


حاکم صرف اللہ ہے 203

قران حکیم تمام آسمانی کتابوں سے زیادہ صراحت کے ساتھ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ حاکم مطلق بجز اللہ کے اور کوئی نہیں ان الحکم الاللہ

(خدا کے سوا حکم کسی کے لئے نہی ہے)۔

صرف اسی کو یہ حق ہے کہ جیسا چاہے حکم دے

ان اللہ یحکم ما یرید (اللہ جو چاہے حکم دے) ۔

وہی ایک ایسا حاکم ہے جس کے احکام میں کسی چون چراں کی گنجائش نہیں

لا یسئل عما یفعل ( اس کے کسی کام کے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا) ۔

اطاعت اسی کی فرض ہے اور اس لیے فرض ہے کہ انسان اپنے عین خلقت کے لحاظ سے اس کا بندہ ہے دراصل صرف اسی کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے،

وما خلقت من الجن والانس الا لیعبدون۔  (میں نے جن اور انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں)۔

اس کے سوا انسان نہ کسی کا مخلوق ہے نہ بندہ نا پروردہ۔ اسی لیے دراصل کسی انسان پر کسی دوسرے انسان کی اطاعت فرض نہیں۔

یقولون ھل لنا من الامر من شئء قل ان الامر کلہ للہ (وہ پوچھتے ہیں کہ حکم میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ کہہ دو حکم پورے کا پورا اللہ کے لیے ہے)۔

کسی انسان کو نہ تو دوسرے انسان پر حاکمیت متعلقہ Absolute Authority حاصل ہے اور نہ کسی انسان پر یہ واجب کیا گیا ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کے حکم کی اطاعت کرے محض اس بنا پر کہ وہ اس خاص شخص کا حکم ہے۔

آزادی رائے کو نشونما دینے کی چند مثالیں 218

ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کے باغبانوں کو کھجور کی کاشت کے متعلق ایک مشورہ دیا۔ لوگوں نے اس پر عمل کیا مگر وہ مفید ثابت نہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں عرض کیا گیا تو جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تو اندازے سے ایک بات کہی تھی۔ تم میری ان باتوں کو نہ لو، جو گمان اور رائے پر مبنی ہوں۔ ہاں جب میں خدا کی طرف سے بیان کروں تو اس کو لےلو۔ کیونکہ میں نے خدا پر کبھی جھوٹ نہیں باندھا۔

جنگ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابتدا میں جہاں خیمہ زن ہوئے تھے وہ جگہ مناسب نہ تھی۔ حضرت خباب بن منظر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اس مقام کا انتخاب وحی کے تحت کیا گیا ہے یا محض ایک تدبیر جنگ کے طور پر؟ فرمایا : وہی نہیں ہے۔ انہوں نے عرض کیا اگر ایسا ہے تو میری رائے میں آ گے بڑھ کر فلاں مقام پر خیمہ زن ہونا چاہیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو قبول فرمایا اور اسی پر عمل کیا۔

اسیران جنگ بدر کے مسئلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی جماعت سے مشورہ لیا اور خود ایک عام رکن جماعت کی حیثیت سے رائے دی۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپؐ کی اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے سے بے تکلف اختلاف کیا جس کا واقعہ تمام تاریخوں میں مشہور ہے۔ اسی مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے داماد ابو العاص کا مسئلہ بھی پیش کیا اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا اگر تمہاری مرضی ہو تو ان سے فدیہ میں جو ہار لیا گیا ہے وہ انہیں واپس کر دیا جائے۔ جب صحابہ نے بخوشی اس کی اجازت دی تب اپ نے ہار انہیں واپس کیا۔

غزوہ خندق کے موقع پر حضورؐ نے بنی غطفان سے صلح کرنے کا ارادہ فرمایا۔ انصار کے سرداروں نے عرض کیا کہ اگر یہ ارادہ وحی کے بنا پر ہے تو مجال کلام نہیں۔  اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رائے سے ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ تو ہمیں اس تجویز سے اختلاف ہے۔ حضورؐ نے انہی کی رائے قبول فرمائی اور اپنے ہاتھ سے صلاح نامے کا مسودہ چاک کر ڈالا۔


صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام مسلمانوں کو بظاہر دب کر صلح کرنا پسند نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ علانیہ اس سے اختلاف کیا۔ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کام میں خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے کر رہا ہوں تو باوجود یہ کہ غیرت اسلامی کی بنا پر سب ملول تھے، کسی نے دم مارنے کی جرات نہ کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مرتے دم تک اس غلطی کے کفارے طرح طرح سے ادا کرتے رہے کہ وہ ایک ایسے امر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کر بیٹھے جو بحیثیت رسول کیا جارہا تھا۔


جنگِ حنین کے موقع پر تقسیمِ غنایم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولفة القلوب کے ساتھ جو فیاضی ظاہر فرمائی تھی اس پر انصار چیں بجیں ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا۔ اپنی فعل کی تائید میں یہ نہیں فرمایا کہ میں خدا کا نبی ہوں جو چاہوں کروں، بلکہ ایک تقریر کی جس طرح ایک جمہوری حکومت کا سردار اپنی رائے سے اختلاف رکھنے والوں کے سامنے کرتا ہے۔ ان کے ایمان بالرسالت سے اپیل نہیں کی بلکہ ان کی عقل اور ان کے جذبات سے اپیل کی اور انہیں مطمئن کرکے واپس فرمایا۔


یہ تو خیر ان لوگوں کے ساتھ معاملہ تھا جو سوسائٹی میں بڑی اونچی پوزیشن رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں اور لونڈیوں تک میں استقلال رائے کی روح پھونک دی تھی۔ بریرہ ایک لونڈی تھی جو اپنے شوہر سے متنفر ہو گئی تھی۔ مگر شوہر اس کا عاشق زار تھا۔ وہ اس کے پیچھے روتا پھرتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا تو اپنے شوہر سے رجوع کر لیتی تو اچھا تھا۔ اس نے پوچھا "یا رسول اللہ کیا آپ حکم دیتے ہیں؟"  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا "حکم نہیں بلکہ سفارش کرتا ہوں۔"  اس نے کہا  "اگر یہ سفارش ہے تو میں اس کے پاس جانا نہیں چاہتی-"

اس قسم کی اور بہت سی مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب قرینہ سے یا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریح سے لوگوں کو یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ آپؐ کوئی بات اپنی رائے سے فرما رہے ہیں تو وہ آزادی کے ساتھ اس میں اظہار رائے کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس آزادانہ اظہار رائے میں ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ ایسے موقع پر اختلاف کرنا نہ صرف جائز تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بسا اوقات اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے تھے۔



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.