کئی سال کے بعد میرے پیدائشی شہر ہاسن میں اس سال عید الفطر ادا کرنے کا موقع نصیبب ہوا۔ عید سے ایک دن پہلے ہم لوگ بنگلورو سے ہاسن پہنچے روزہ افطار کیا۔ ہمارے بنگلورو نکلنے سے دو تین دن پہلے ہی وہاٹس ایپ کے مسیجس ویرل کررہے تھے کے عید کی نماز پرانے عیدگاہ میں 8.30 بجے ادا کی جائیگی۔ پھر مختلف مساجد میں مجھے نماز ادا کرنے کا موقع ہوا تو وہاں بھی سلام پھیرنے کے بعد عید کی نماز کے وقت کا اعلان ہوتا رہا۔ غالباً دو تین دن سے اس طرح کا اعلان ہاسن کی عوام میں دباو بنائے رہا جس سے عید کی نماز پہلے کے مقابل میں زیادہ افراد وقت مقرّرہ پر ادا کیا۔
میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ ایک عیدگاہ میں ایک امام کے پیچھے ایک نماز ادا کرتے ہوئے۔ اکثر دیکھنے میں یہ آیا کہ دیر سے آنے والوں کے لئے دوسری جماعت ہوا کرتی تھی۔
خوشی صرف اس بات کی نہی کہ سنّت کے مطابق عمل کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں۔ بلکے خوشی اس بات کی بھی تھی کہ شریعت کے مطابق بڑھتے ہوئے قدم کی بھر پور تائید(اٙمنّا و صدقنا) ہاسن کی عوام کرنے کے لئے تیّار ہے۔ عوام کی طرف سے علماء ہاسن کو پوری تائید نصیب ہوئی جس سے علماء ہاسن کی ہمّتیں بندھ گئی ہونگی۔
مفتی مولانا اسلم صاحب کا خطبہ پوری یکسوئی کے ساتھ صرف مسلمانانِ ہاسن ہی نہی بلکے قریب کے برادرانِ وطن اور پولیس کا عملہ بھی سنا اور انہوں نے بھی اس کے اثرات لئے ہونگے۔ کیونکہ آج ہندوستان میں ہندی زبان کے فروغ کے لئے سرکاری طور پر کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس سے اردو خطبہ برادرانِ وطن کے سمجھنے میں کسی دقّت کا سامنے کرنے کی ضرورت نہی رہی۔ خطبے کا موضوع پاکی صفائی، صاف ستھرا معاشرہ، ووٹ اور ووٹ کے دن الیکشن کی مصروفیات، برادرانِ وطن سے اچھے تعلقات، پولیس عملہ کی مدد وغیرہ۔۔۔
بڑا اچھا اور عمدہ خطبہ رہا، علماء اگر منظم انداز سے ہر مسجد میں جمعہ کے خطبے سے پاکی صفائی پر توجہ کی اہمیت پر زور دیں گے تو ممکن ہے کہ مسلم معاشرہ شہر کی پاکی صفائی کے لئے اپنا ایک الگ سے عملہ کھڑا کردے۔ علماءِ ہاسن منظم انداز سے مسلم معاشرے میں پھیلی برائیاں کو نکال باہر کرنے میں بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس معاشرے میں پھیلی اچھائیوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ جس سے ایک مثالی معاشرہ سامنے آئے۔
عبدالعلی بن عبدالقدیر اصلاحی ہاسن
