مغرب کی نماز کا سلام پھیر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر فون دیکھا توکیناڈا سے بدرو بھیا کا مس کال تھا۔ خیر نماز سے فارغ ہوکر اپنے دوسرے کام نپٹا کر بنگلورو جانے کے لئے بس کا انتظار کررہا تھا اتنے میں بس آگئی مجھے سیٹ بھی مل گئی ۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد خیال آیا کہ بدرو بھیا کا فون مس ہوا تھا کہ چلو ان کو وہاٹس ایپ کال کرلیتے ہیں۔ یہ سوچ کر میں نے کال ملایا زیادہ انتظار کرنا نہ پڑا وہاں سے فورا کال ریسیو ہوا۔ خیر خیریت کے بعد انہوں نے کوئی خاص خبر کی فرمائش کی تو میں کہا کوئی خاص خبر نہی ہے۔ ہاں ایک خبر یہ ہے کہ صادقہ آپا کا انتقال ہوگیا۔ یہ خبر ان کے لئے پرانی تھی اور اس کا مجھے علم بھی تھا کیونکہ صادقہ آپا کی تدفین پر بدرو بھیا کے بھائی قمرو بھیا شریک رہے تھے۔ میں نے ان کے انتقال کی خبر چھیڑ کر ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالنا چاہتا تھا۔ میں ان کے ساتھ ان سے منسلک یادیں شیئر کرنا چاہتا تھا کہ اگر میں غلط رہا تو وہ فورا میری گرفت کریں گے۔ مرحومہ صادقہ آپا کے شوہر مرحوم عبدالسلام صاحب شہر ہاسن کے پہلے رکنِ جاعت تھے۔ ان کا کاروبار ریڈی میڈ کپڑوں کا تھا ان کی اپنی فیکٹری تھی ۔ جہاں پر ہفتہ بھر مال بنتا اور سارے ہفتے کا مال ایک دن بازار میں فروخت ہوجاتا تھا۔ ان کا گھرانا مہمان نواز گھرانا تھا۔ جماعت کے جتنے بھی ذمہ دار آتے سب ان کے یہاں ہی ٹہرتے تھے۔ انبکے گھر کے سامنے کے دو کمرے جماعت کے ذمہ داروں کو مختص تھے۔ بڑی فیملی تھی گھر کے کام کے ساتھ فیکٹری کا انتظام وہ خود کرتیں تھیں۔ سلام صاحب نے ایک دوسرے کاروبار کو ہاتھ ڈالا جو شامیانے کا کاروبار تھا۔ اللہ نے اس کاروبار میں خوب برکت دی اور وہ رفتہ رفتہ کپڑے کے کاروبار کو خیرباد کہا اور سارا زور شامیانے پر ڈالا۔ اور وہ دور دور تک سلام صاحب شامیانہ والے کے نام سے مشہور ہوگئے۔ صادقہ آپا جماعت کی رکن تو نہی بنیں مگر جماعت کے دکھ درد میں برابر کی شریک رہیں۔ اپنی آنکھوں سے جماعت کے بیج کو کے پودا بنتے دیکھا پودے تناور اور پھلدار درخت بنتے دیکھا اس کی آبیاری میں ان کا دخل تھا۔ اپنے شوہر کے پشت پر بڑا سہارا بنے کھڑی رہیں تھیں۔ ایمرجنسی کا زمانہ ہو یا مخالفت کے طوفان ہوں برابر اپنے شوہر کا ساتھ دیتی رہیں۔
بدرو بھیا نے دورانِ گفتگو یہ بات چھیڑدی کہ ان کی خدمت میں ان کی ایک بیوہ بہو پیش پیش رہیں۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں۔ مگر میں نے زرا زیادہ غور کیا تو معلوم ہوا کہ صادقہ آپا کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت کے لئے اللہ نے ان کی بیوہ بہو کا انتخاب کیا اور وہ اللہ کی طرف ڈالی گئی ذمہ داری کو بہت اچھے انداز سے نبہایا بھی۔ دوسرے تمام بچے شہر سے باہر ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ماں کی خدمت نہیں کرسکتے تھے اور جو بیٹی اسی شہر میں تھیں۔ انہوں نے اپنی ماں کی خوب خدمت کیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ایک بہو کا انتخاب فرما کر تمام بچوں کو ان کی خدمت سے آزاد کیا ۔ اور آخرت میں ایک بڑی سزا سے سب کو بچالیا۔ جب بھی 17 رمضان آئے گا صادقہ آپا کی یاد تازہ ہوگی کیونکہ اسی دن وہ اپنے رب سے جاملیں تھیں، اور 18 رمضان کو ان کی تدفین عمل میں آئی تھی۔ تدفین کا عمل دیر سے ہونے کی وجہ ان کی ایک بیٹی اورطایک بیٹا دمام سعودی عرب سے آنا تھا۔یہ سب میری گفتگو رہی بدرو بھیا سے۔
عبدالعلی بن عبدالقدیر اصلاحی ہاسن
پچیس رمضان 25/03/202
