ہم سب کی خالہ جان

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

 

 

ہم سب کی خالہ جان
ابھی ابھی یہ خبر وہاٹس ایپ پر نشر ہوئی کہ جناب سید عبدالخالق صاحب کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن۔ مرحومہ بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں۔ان کی خوبیوں کا تزکرہ میری بڑی بہن تبسم ارشاد اور میری بیوی نصیبہ اکثر کیا کرتی تھیں۔ خوتین میں تحریک کے سینیر اور جونیر سب کی خالہ جان تھیں۔ میں ان کو اور ان کے پورے پریوار کو نوایت واڈی سے جانتا رہا ہوں۔ جب تک وہ نوایت واڑی میں رہے۔ میرا ان کے گھر آنا جانا اکثر رہا کرتا تھا۔ ان کا چھوٹا بیٹا سید صادق میرا اور سب دوستوں کا اچھا دوست تھا۔چھوٹی چھوٹی مگر خوبصورت شرارتیں اس کے اندر تھیں۔ وہ اپنی ہنسی کے ذریعے سے ہماری حوصلہ افزائی کرتا۔
وہ اپنی ماں کا سب سے چہتا بیٹا تھا۔گھر کے دوسرے بڑوں کی سزا سے بچنے کا واحد سہارا وہ اپنی امی کو سمجھتا تھا۔ خالہ جان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہئے کے قدیم عیدگاہ میں خواتین کا ایک روزہ اجتماع میں خالہ جان مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھیں۔ خالہ جان اس دنیا میں بہت دکھ جھیلے ہیں۔ ایک بڑی فیملی کو سنبھالا ہے۔ ان کی اچھی اور شاندار تربیت کی ہے۔ سید صادق جس کو انھوں نے بہت لاڈ پیار دیا مگر ان کے لاڈ پیار نے  اس بگڑنے کے بجائے وہ اور زیادہ نکھرنے لگا وہ اپنے دوستوں کا ہر دل عزیز اور دوستوں کی اچھی عادتوں کو ابھارنے والا اور ان کی غلط باتوں اور کاموں پر بلا جھجک ٹوکنے والا ان سب خوبیوں کو اس کے اندر پیدا کرنے میں سوائے ان کی امی کے میں نہیں سمجھتا کے کسی اور کا بھی اس میں کوئی زرا برابربھی ہاتھ ہے۔

اچھی والدہ کا لاڈپیار نظرتو آتا ہے مگر اپنی اولاد کے بگڑنے کی فکر ہمیشہ لگی رہتی ہے۔ خالہ جان کی تربیت لاڈ پیار کے ساتھ صادق کے اندر کوئی ایک خامی تک رہنے نہیں دی سوائے اس کے کہ وہ اسموک کرتا ہے۔شائد اب تک وہ بھی چھوٹ گیا ہوگا۔ اللہ نے ان کو بڑی زندگی عطا کی اور بڑی فیملی کو گائڈ کیا اور بڑی فیملی کی لیڈر بن کر رہیں۔بے شک یہ سب ان پر اللہ کا انعام ہے۔
ایک واقعہ جو مجھے رہ رہ کرخوب ستاتا ہے وہ یہ کے ایک بار میرے والد نے صادق کو خوب مارا تھا اور اس بات کا چرچا بھی پورے محلے میں ہوگیا تھاجب مجھے پتہ چلا تو مجھے بھی بہت افسوص ہوا کیونکے میں صادق کو خود سے زیادہ چاہتا تھا اگر صادق کی جگہ کوئی اور ہوتا تو بھی مجھے اتنا افسوص نہیں ہوتا۔جب بھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہئے میں بیچین ہوجاتا ہوں یہ سوچ کر کے اس واقعہ کا صدمہ صادق کی والدہ نے کیسے برداشت کیا ہوگا۔ صادق پر ہاتھ اٹھانے اس کے اپنے بھائی بہن سو بار سوچتے تھے۔
اور مجھے اس بات پر بھی افسوص ہے کہ میرے والد کی زندگی میں ' میں ان کو اس بات پر قائل کرکے ان کو صادق کی والدہ سے معافی حاصل کرلیتا میری بات کو میرے والد بلکل بھی نہیں ٹالتے اور اور صادق کی والدہ محترمہ بھی صدقہ دل سے معاف کردیتیں کیونکہ وہ میرے والد کی معتقد تھیں۔اب یہ معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔مجھے امید ہے کے اللہ تعالئ میرے والد پر رحم کا معاملہ فرمائےگا مجھے تو دونوں طرف سے امید تھی معافی لینے اور دینے پر۔۔۔اللہ تعالئ مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔ان کی پوری زندگی جد و جہد میں گزری اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی علاج و معالجہ کی تکالیف سے گزرتی رہیں۔ اللہ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔ان کے حسنات کو قبول فرمائے۔ان کو جنت الفردوس میں اعلئ مقام عطا فرمائے۔پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

عبدالعلی
چامراج پیٹ۔بنگلورو

 

 

 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.